پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے 24 اکتوبر کو مظاہروں کی کال کے بعد پنجاب حکومت نے وسیع پیمانے پر اقدامات کیے ہیں تاکہ قانون و امان کو برقرار رکھا جا سکے۔ ان اقدامات میں دفعہ 144 کا نفاذ، اہم راستوں کو بند کرنا، اور پولیس کے وسیع گشت شامل ہیں۔
دفعہ 144 کا نفاذ اور حکومتی اقدامات
پنجاب کے کئی شہروں میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے، جس کے تحت عوامی اجتماعات پر تین دن کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس اقدام کا مقصد ممکنہ بدامنی کو روکنا اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ لاہور، ساہیوال، سرگودھا، اور ملتان سمیت مختلف اضلاع میں مظاہروں کی کال کے بعد اہم راستوں پر کنٹینرز لگا کر داخلی و خارجی راستے بند کر دیے گئے ہیں۔
حکومت نے مختلف شہروں میں سخت سکیورٹی اقدامات کیے ہیں۔ فیصل آباد، میانوالی، اور بہاولپور میں پولیس نے مظاہروں کو روکنے کے لیے متعدد افراد کو گرفتار کیا۔ فیصل آباد میں 200 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا، جن میں پی ٹی آئی کے دو اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، موبائل فون سروس بھی معطل کی گئی تاکہ عوام کے درمیان رابطے محدود کیے جا سکیں۔
سیاسی ردعمل اور قانونی چیلنجز
پی ٹی آئی کی جانب سے حکومتی اقدامات کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں ایک شہری کی جانب سے دفعہ 144 کے خلاف درخواست بھی دائر کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام عوام کے پرامن احتجاج کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہے۔
ان اقدامات نے نہ صرف سیاسی کارکنوں بلکہ عام شہریوں کی روزمرہ زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔ کئی شہروں میں کاروباری مراکز بند ہیں اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا ہے، جس سے عوامی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔