روس اور یوکرین نے ایک تازہ ترین قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں 206 جنگی قیدیوں کو رہا کیا ہے جس میں دونوں ممالک نے 103-103 قیدیوں کو ایک دوسرے کے حوالے کیا ہے۔
یہ معاہدہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی ثالثی میں طے پایا ہے جس نے دونوں فریقوں کے درمیان انسانیت کی بنیاد پر اہم تعاون فراہم کیا ہے۔ اس تبادلے میں 103 روسی فوجیوں کو شامل کیا گیا جو اگست 2024 کے آغاز میں یوکرینی فوجیوں کے کرسن علاقے میں حملے کے دوران گرفتار ہوئے تھے۔
قیدیوں کے تبادلہ میں یو اے ای کا کردار
یوکرین کے خلاف روس کی کارروائیوں اور جاری تنازعے کے دوران کئی بار قیدیوں کے تبادلے دیکھنے کو ملے ہیں۔ یہ تبادلہ بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے جہاں یو اے ای نے ایک بار پھر امن و انسانیت کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ روس کی وزارت دفاع کے مطابق، ان 103 روسی فوجیوں کو یوکرین کے حملے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور یو اے ای کے تعاون سے ان کی رہائی ممکن ہو پائی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب روس اور یوکرین نے قیدیوں کا تبادلہ کیا ہو۔ یو اے ای اس سے قبل بھی ایسے تبادلوں میں شامل رہا ہے اور ساتھ ہی سعودی عرب اور ترکی نے بھی اس عمل میں ثالثی کی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں دونوں فریقین کے درمیان متعدد قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے جو عموماً فریقین کے درمیان کشیدگی کے باوجود انسانی مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
انسانی بنیادوں پر امن کی کوششیں
جنگ کے دوران قیدیوں کا تبادلہ نہ صرف انسانی زندگیوں کو بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ یہ تنازعے میں بھی ایک مثبت پیش رفت کی علامت ہے۔ یو اے ای جیسے غیر جانبدار ممالک کا اس عمل میں کردار قابل تعریف ہے کیونکہ یہ دو دشمن ممالک کے درمیان پل کا کام کرتے ہیں اور مذاکرات کی راہیں کھولنے میں مدد دیتے ہیں۔
عالمی استحکام کے لیے ثالثی کی اہمیت
ایسے تنازعات میں جب دو فریقین کے درمیان براہ راست بات چیت ممکن نہیں ہوتی، غیر جانبدار ممالک جیسے کہ یو اے ای، سعودی عرب اور ترکی کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ ان ممالک کی ثالثی سے قیدیوں کی رہائی جیسے معاہدے ممکن ہوتے ہیں اور مذاکرات کے لیے ایک قابل قبول ماحول فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح کی بین الاقوامی تعاون کی کوششیں نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی استحکام کے لیے بھی اہم ہیںکیونکہ یہ بڑے تنازعات کے دوران بھی امن کی امید کو زندہ رکھتی ہیں۔
قیدیوں کے تبادلے کا عالمی منظر نامہ
اس تنازعے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کئی مرتبہ قیدیوں کا تبادلہ ہو چکا ہے جو زیادہ تر یو اے ای اور دیگر ممالک کی ثالثی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ قیدیوں کے یہ تبادلے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ باوجود جنگی حالات کے، فریقین انسانی مسائل کے حل کے لیے آمادہ ہو سکتے ہیں۔