شدید گرمی کے باوجود تمام حاجی میدان عرفات میں جمع ہوکر خدا کی عبادت میں مصروف ہیں۔ عرفات میں واقع پہاڑی کو رحمت کی پہاڑی کہا جاتا ہے۔ یہ پہاڑی مکہ سے تقریباً ۲۰؍ کلومیٹر جنوب مشرق میں ہے۔
انبیاء کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، تپتے سورج کے نیچے آج دنیا بھر سے مسلمان سعودی عرب میں مکہ کے جنوب مشرق میں مقدس پہاڑی پر عبادت کیلئے جمع ہوئے ہیں۔ میدان عرفات کی پہاڑی پر مناسک، جسے رحمت کی پہاڑی کہا جاتا ہے، کو حج کا اہم ترین عمل قرار دیا جاتا ہے۔ اکثر حاجیوں کیلئے یہ یادگار لمحہ ہوتا ہے جب سبھی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں اور خدا سے رحمت، برکت، خوشحالی اور صحت کی دعا کرتے ہیں۔ یہ پہاڑ مکہ سے تقریباً ۲۰؍ کلومیٹر جنوب مشرق میں ہے۔
پیغمبر اسلام نبی کریمﷺ نے ۱۴۳۵؍ سال قبل اس مقدس پہاڑی پر اپنی آخری تقریر کی تھی، جسے الوداعی خطبہ کہا جاتا ہے۔ خطبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان مساوات اور اتحاد پر زور دیا تھا۔
خیال رہے کہ حج دنیا کے بڑے مذہبی اجتماعات میں سے ایک ہے۔ حج کی یہ رسومات باضابطہ طور پر جمعہ کو اس وقت شروع ہوئیں جب حجاج مکہ کی عظیم الشان مسجد سے منیٰ منتقل ہوئے، جو شہر سے بالکل باہر صحرائی میدان ہے۔
سعودی حکام کو توقع ہے کہ اس سال عازمین کی تعداد ۲۰؍ لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔
اس سال کا حج غزہ میں اسرائیل کی شدید جنگ کے پس منظر میں ہورہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے رفح کراسنگ پر قبضے کی وجہ سے غزہ کے ساحلی علاقے میں فلسطینی اس سال حج کیلئے مکہ نہیں جا سکے تھے۔
حکام نے زور دیا ہے کہ حجاج کرام دھوپ میں چھتری کا استعمال کریں اور زیادہ پانی پئیں۔
عرفات میں ہفتہ کی عبادت کے بعد، حجاج مزدلفہ کے نام سے مشہور مقام پر چند کلومیٹر کا سفر کرکے کنکریاں اکٹھا کریں گے جسے وہ منیٰ میں شیطان ( علامتی طور پر) کو ماریں گے۔
اس کے بعد حجاج عید الاضحی کےموقع پر مویشیوں کی قربانی کرتے ہیں اور آخری طواف کیلئے مکہ واپس آتے ہیں، جسے الوداعی طواف کہا جاتا ہے۔
حج ختم ہونے کے بعد، مردوں سے سر منڈوانے کی توقع کی جاتی ہے، اور خواتین سے تجدید کی علامت کے طور پر بالوں کا نچلا حصہ کاٹنا ہوتا ہے۔
اس کے بعد زیادہ تر زائرین مکہ سے مدینہ کیلئے روانہ ہوتے ہیں، جو تقریباً ۳۴۰؍ کلومیٹر دور ہے۔