کسانوں نے 21 مئی کو ملک گیر احتجاج اور اسی دن لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ سابق نگراں وزیراعظم اور بعض بیوروکریٹس کی جانب سے جان بوجھ کر گندم کا بحران پیدا کیا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق جمعرات کو پاکستان کی 15 کسان تنظیموں کا اجلاس منعقد ہوا اور اس میں گندم کے جاری بحران پر تبادلہ خیال کیا گیا جس نے پوری کسان برادری کو خاص طور پر پنجاب میں ہلا کر رکھ دیا ہے۔
پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کسانوں کے اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے مطالبہ کیا کہ گندم امپورٹ میں ملوث سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ، بیوروکریٹس اور درآمد کنندگان کی فوری گرفتاری عمل میں لائی جائے۔
انہوں نے کاشتکاروں کو ہونے والے نقصان کے ازالے اور غیر صحت بخش گندم درآمد کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔
گندم درآمد کر کے 330 ارب روپے ضائع کئے گئے
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اگست 2024 سے مارچ 2024 تک 3.4 ملین ٹن گندم درآمد کرکے 330 ارب روپے ضائع کیے گئے ہیں۔
پاکستان کسان اتحاد کے صدر ملک ذوالفقار اعوان نے مطالبہ کیا کہ گندم کی درآمد کے سکینڈل میں ملوث تمام افراد کو فوری گرفتار کرکے نیب عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے اور نجی شعبے کو اناج درآمد کرنے کا اختیار دینے کی پالیسی کو ختم کیا جائے۔
انہوں نے گندم کی درآمد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ اس سیزن میں ملک میں ماضی کی نسبت زیادہ ایکڑ پر فصل کاشت کی جا چکی ہے۔
کسان تنظیموں نے جعلی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے خاتمے کے لیے تحصیل کی سطح پر لیبارٹریز کے قیام اور چھوٹے کسانوں سے قرضوں پر ناقابل برداشت سود وصول کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے گندم اور دیگر فصلوں کی کم از کم امدادی قیمتوں اور اناج کی منڈیوں کو ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ کسانوں کو ان کی پیداوار کی مناسب قیمت مل سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ہر سال کسانوں سے گندم خریدنی چاہیے۔
انہوں نے 21 مئی کو ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں اور مطالبات کی منظوری تک اپنے احتجاج کو مزید تیز کرنے کی دھمکی بھی دی۔
انہوں نے مزید استحصال کو برداشت نہ کرنے اور اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کا بھی اعلان کیا۔