اتوار کے روز مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز کی زیر صدارت لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے یوتھ کوآرڈینیٹرز کا مشاورتی اجلاس منعقد ہوا اور یہ اجلاس ان سرگرمیوں کے سلسلے کا حصہ ہے جو پارٹی ان دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف کی 21 اکتوبر کو وطن واپسی پر ان کا پرجوش استقبال کرنے کے لئے کر رہی ہے۔
سابق وزیراعظم کے لیے کم از کم 10 لاکھ افراد پر مشتمل استقبالیہ کا اہتمام کرنا مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان اختلافات جیسے مسائل کے دوران ورکرموبلائزیشن اورعوامی ہجوم کھینچنے کی مہارت کا امتحان ہے۔ حفاظتی ضمانت کے خدشات کے باعث نوازشریف کی وطن واپسی اب بھی ابہام کا شکار ہے۔
اس وقت، شہباز شریف، اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور اعظم نذیر تارڑ جیسے پارٹی رہنما لندن میں نواز شریف سے قانونی اور سیاسی پیچیدگیوں پر بات چیت کر رہے ہیں، جبکہ مریم نواز پارٹی کے مقامی چیپٹرز اور ونگز سے ملاقاتوں کا ایک دور مکمل کرنے کے بعد ان کے ساتھ شامل ہوں گی۔
پارٹی کیڈر کو متحرک کرنے کے لیے مریم نے فوکل پرسنز کا تقرر کیا ہے اور ضلعی سطح پر رابطہ کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔ سابق ایم این اے، ایم پی اے، ٹکٹ ہولڈرز اور دیگر معززین پر مشتمل یہ باڈیز صرف ان کو براہ راست جوابدہ ہوں گی اور استقبالیہ ختم ہونے کے بعد جلد ہی تحلیل ہو جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں | ایف بی آرکی غیر منقولہ جائیدادوں پر ٹیکس ادائیگی کی تفصیلی ہدایات جاری
اس وقت ہر رکن پارلیمنٹ، ٹکٹ ہولڈر اور پارٹی عہدیدار کے لئے استقبالیہ میں حامیوں کو لانے کے کم سے کم ہدف کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
تاہم خواجہ آصف سمیت پارٹی رہنماؤں کے یہ بیانات کہ نواز شریف حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کے بعد ہی وطن واپس آئیں گے تاکہ انہیں جولائی 2018 کی طرح ایئرپورٹ پر گرفتار نہ کیا جاسکے، وطن واپسی کے منصوبوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ اور اس سے پارٹی کارکنوں اور حامیوں میں جوش و خروش کم ہوتا نطر آرہا ہے۔