پاکستان کی ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے ہتھیار ڈالنے کی شرط
پاکستان نے عبوری افغان حکومت کو بتایا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے صرف اس صورت میں بات کرنے پر غور کر سکتا ہے جب دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی ہتھیار ڈال دے۔
پاکستان موجودہ حالات میں ٹی ٹی پی سے مزید مذاکرات کا خواہاں نہیں ہے۔ لیکن ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات میں داخل ہونے سے انکار کے باوجود، افغان طالبان اب بھی بات چیت کے خواہشمند ہیں۔
پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی تجویز
جب افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے گزشتہ ماہ اسلام آباد کا دورہ کیا تو انہوں نے ایک بار پھر پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی تجویز پیش کی۔
معتبر زرائع کے مطابق پاکستان نے کہا کہ ہم اب ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے خواہاں نہیں ہیں۔ مذاکرات کا امکان صرف اسی صورت میں تلاش کیا جا سکتا ہے جب ٹی ٹی پی ہتھیار ڈال دے۔
اگست 2021 میں افغان طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کی۔
افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت میں ابتدائی طور پر پیش رفت ہوئی کیونکہ ٹی ٹی پی نے پاکستان کے بعض عسکریت پسندوں کو آزاد کرنے کے بدلے میں جنگ بندی پر اتفاق کیا۔
پاکستان نے اعتماد سازی کے اقدامات کے تحت ٹی ٹی پی کے سینکڑوں جنگجوؤں کو واپس آنے کی اجازت بھی دی۔ لیکن اس اقدام نے فوری طور پر جوابی فائرنگ کی کیونکہ واپس آنے والے عسکریت پسندوں نے اس موقع کو دوبارہ منظم کرنے اور سیکورٹی فورسز پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔
یہ بھی پڑھیں | لاہور ہائیکورٹ کی ظل شاہ قتل کیس میں عمران کی ضمانت قبل از گرفتاری کی توثیق
گزشتہ سال نومبر میں فوج کی کمان کی تبدیلی کے ساتھ ہی پاکستان کو احساس ہونے ہوا کہ امن معاہدے کے حصول کی پالیسی ایک غلطی تھی۔
اس بات کا اعتراف ملک کی سول اور عسکری قیادت نے اعلیٰ اختیاراتی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا کہ ٹی ٹی پی سے بات کرنا اور ان کے عسکریت پسندوں کو واپس جانے کی اجازت دینا ایک غلطی تھی۔
اس کے بعد سے پاکستان اس بات پر بضد ہے کہ وہ ٹی ٹی پی سے مزید مذاکرات کا خواہاں نہیں ہے۔
تاہم، افغان طالبان کی حکومت اب بھی مذاکرات کی بحالی کی امید کر رہی ہے۔