آئی ایم ایف) کی جانب سے 6 بلین ڈالر کے قرض کے پروگرام کو بحال)
سوموار کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے 6 بلین ڈالر کے قرض کے پروگرام کو بحال کرنے کے لیے مقرر کردہ بعض شرائط پر تعطل کی وجہ سے، امریکہ نے اسلام آباد کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر بات چیت کرنے میں مدد کرنے پر "اتفاق” کیا ہے۔
یہ پیشرفت ان رپورٹس کے بعد سامنے آئی ہے کہ سینئر پاکستانی حکام نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں امریکی سفیر سے ملاقات کی ہے۔
حکومت کے پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے کے سخت فیصلے کے باوجود آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور آئی ایم ایف اب بھی مزید کی ڈیمانڈ کر رہا ہے۔
بنیادی طور پر غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے پاکستان ایک ’مایوس قرض لینے والا‘ ملک بن گیا ہے۔
اعلیٰ سرکاری ذرائع نے جمعہ کے روز نجی نیوز کو تصدیق کی کہ آئی ایم ایف کے عملے نے ابھی تک مالیاتی اور اقتصادی پالیسیوں کی یادداشت (میفپ) کا پہلا مسودہ پاکستانی حکام کے ساتھ شیئر نہیں کیا ہے جو کہ عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کی طرف بڑھنے کے لیے ایک شرط ہے۔ یہ ایک فریم ورک کی بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر دونوں فریق اتفاق رائے پیدا کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے جمعرات کو امریکی سفیر سے اس حوالے سے ملاقات کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں | امریکہ کی بے جے پی رہنماؤں کے گستاخانہ بیانات کی مذمت
یہ بھی پڑھیں | افغانستان: کابل میں 70 شادیوں کی اجتماعی تقریب
اشاعت میں کہا گیا تھا کہ یہ کافی نہیں ہوگا کیونکہ اسلام آباد کو امریکی وزارت خزانہ کے اعلیٰ افسران کے ساتھ ‘رابطے’ قائم کرنے ہوں گے تاکہ فریم ورک پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے بعد مطلوبہ تعاون حاصل کیا جا سکے جس کی بنیاد پر دونوں فریق پیش رفت کر سکیں۔
اہلکار نے بتایا کہ فریم ورک کی بنیاد پر وسیع تر معاہدے کے بغیر، کوئی بھی پاکستان کی مدد نہیں کر سکتا ہے۔ فریم ورک پر اتفاق ہو تو ہی دونوں فریقوں کے درمیان ایک یا دو اہم مسائل پر امریکہ کی مدد لی جا سکتی ہے۔
ان کا موقف تھا کہ ماضی میں اگر دونوں فریقین شرح مبادلہ کی درست برابری پر اتفاق رائے پیدا نہ کر سکے تو امریکا یا یورپی یونین جیسے اہم ممالک کا اثر و رسوخ تلاش کیا جا سکتا ہے۔
سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہونے کے ناطے، واشنگٹن کا آئی ایم ایف پر خاصا اثر و رسوخ ہے۔
دونوں فریقوں کے درمیان بقایا مسائل میں تنخواہ دار طبقے کے لیے پرسنل انکم ٹیکس (پی آئی ٹی) پر نظرثانی شدہ شرحیں، پیٹرولیم لیوی کا تخمینہ 750 ارب روپے، پاور سیکٹر کی سبسڈی کے ساتھ ساتھ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن (یو ایس سی) کی سبسڈیز شامل ہیں۔