اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے افغانستان ریلیف فنڈ کھولنے سے انکار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کے خلاف پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔
اعلیٰ حکومتی ذرائع نے نجی نیوز کو بتایا کہ مرکزی بینک نے امدادی فنڈ کھولنے کی حکومت کی درخواست کو اس مشورے کے ساتھ واپس کر دیا ہے کہ اس فیصلے پر بین الاقوامی معاہدوں اور ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان کے تحت پاکستان کے وعدوں کی روشنی میں نظرثانی کی جا سکتی ہے۔
وفاقی حکومت نے افغان عوام کی فوری انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کے لیے پاکستان اور بیرون ملک سے نقد عطیات وصول کرنے کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس کے بعد، 8 دسمبر کو، وزارت خزانہ نے اسٹیٹ بینک کو افغانستان کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے افغانستان ریلیف فنڈ کو فوری طور پر کھولنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔
وفاقی حکومت نے اسٹیٹ بینک کے گورنر سے درخواست کی تھی کہ وہ شیڈول بینکوں کو اکاؤنٹ کھولنے کے لیے ضروری ہدایات جاری کریں۔ لیکن اب تک، اکاؤنٹ غیر فعال ہے۔
سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ نے ننی نیوز کو بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی درخواست پر، افغانستان ریلیف فنڈ کھولنے کے معاملے کا جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستان اپنے بین الاقوامی وعدوں کی مکمل تعمیل کرتا ہے۔
وزارت خزانہ نے اسٹیٹ بینک کے مشاہدات کو وزارت اقتصادی امور، وزارت قانون اور دفتر خارجہ کو اس معاملے کا جائزہ لینے اور اسے وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کے ساتھ بھیج دیا ہے۔
وزارت نے اس ہفتے تمام اسٹیک ہولڈرز، بشمول اسٹیٹ بینک ایک راستہ تلاش کرنے کے لیے ایک میٹنگ بھی کی تھی۔ اسٹیٹ بینک کے چیف ترجمان کے جواب کا اسٹوری فائل ہونے تک انتظار تھا۔
یہ بھی پڑھیں | اسٹریلوی کھلاڑی پاکستان وزٹ کر کے عوام کو متاثر کر سکتے ہیں؛ عثمان خواجہ
مرکزی بینک کے مشاہدات نے وفاقی حکومت کے اختیار پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ دفتر خارجہ کو بھی چیلنج دے سکتا ہے جو افغانستان میں تباہی سے بچنے کے لیے بین الاقوامی برادری سے وعدوں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
گزشتہ سال اگست میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد افغانستان کا بینکنگ سسٹم بدستور مفلوج ہے، جس سے عام آدمی اور طالبان حکومت کے لیے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر فوری طور پر کارروائی نہیں کی گئی تو افغانستان افراتفری کی طرف گامزن ہے۔
وزیر اعظم نے او آئی سی کے اجلاس سے یہ بھی کہا تھا کہ کوئی بھی حکومت جب اپنے سرکاری ملازمین، ہسپتالوں، ڈاکٹروں، نرسوں کی تنخواہیں ادا نہیں کر سکتی تو کوئی بھی حکومت گرنے والی ہے لہذا اس وقت افغانستان کسی افراتفری کی صورحال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔