حال ہی میں ترک وزیر خارجہ میلوت کیواسولو اور پاکستانی وزیر تعلیم شفقت محمود نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔
ایم او یو پر دستخط کرنے کی تقریب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی شرکت کی۔ اس معاہدے کے تحت ، جسے ایک روز قبل وفاقی کابینہ نے منظور کیا تھا ، ترکی کی معارف فاؤنڈیشن ، جو اس وقت ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم کی حیثیت رکھتی ہے ، کو پاکستان میں ترکی کے سرکاری ادارے کی طرح سمجھا جائے گا۔
پاکستان کے لئے تنظیم کے کنٹری ڈائریکٹر ہارون کوکوکالادگلی نے کہا ہے کہ اس کے بعد معارف فاؤنڈیشن نئے کیمپس ، ثقافتی اور تعلیمی مراکز ، زبان کے مراکز ، طلبا کے تبادلے کے پروگراموں اور اسکالرشپس کے افتتاح اور اس سلسلے میں پاکستان میں اپنے عمل کو مزد آگے بڑھا سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے کے بعد فاؤنڈیشن کی سرگرمیاں اور کاروائیاں دونوں حکومتوں کے دائرہ کار میں آئیں گی۔
یہ بھی پڑھیں | پی آئی اے کے طیارہ کو ملائشیا میں روک دیا گیا
یاد رہے کہ معارف فاؤنڈیشن کے پاس اس وقت پاکستان کے 27 اسکولوں اور کالجوں میں 10 شہروں کے 12،000 طلباء کی تعلیم ہے ، جن میں اسلام آباد ، کراچی اور لاہور شامل ہیں۔ ان تعلیمی اداروں سے وابستہ تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی تعداد 1،700 سے زیادہ ہے۔
اس ایم او یو پر دستخط کے بعد ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ ترکی پاکستان کو فری سکالرشپس کیوں مہیا کر رہا ہے؟ اس کا ایک مثبت جواب تو یہ ہے کہ پاک ترکی دوستی کی طرف اہم قدم ہے لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔
اس سے پہلے، ترکی شام کے بارڈر پر مختلف ممالک کے نوجوانوں کو بھیج چکا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی نوجوان طلباء کے ساتھ بھی ایسا کھیل کھیلا جا سکتا ہے؟ مشہور مقولہ ہے کہ مفت میں کچھ نہیں ملتا اور اگر آپ کو کچھ فری مل رہا ہو تو اس میں لازمی کوئی مفاد یا گڑ بڑ ہو گی۔