بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے بابری مسجد کی جگہ ایودھیا مندر کی تعمیر کا سنگ بنیاد 5 اگست کو رکھا جائے گا۔
بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے 1992 میں شہید کی گئی بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کو الاٹ کرنے اور مسلمانوں کو کسی اور جگہ مسجد کے لئے اراضہ دینے کا حکم دیا گیا تھا جس کے بعد اب بھارتی حکومت کی جانب سے بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پچھلے سال 5 اگست کے ہی دن بھارتی پارلیمنٹ کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا گیا تھا جسے 5 اگست 2020 کو ایک سال ہو جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق نومبر 2019 کو بھارتی سپریم کورٹ نے تعصب پر مبنی بابری مسجد کا فیصلہ سنایا تھا جس میں مسجد کی زمین ہندوؤں کو الاٹ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ بھارت میں لاک ڈاؤن سے پہلے اور بعد میں مسلسل مظالم، کرفیو اور غیر آئینی اور غیر انسانی معاملات کے سبب پہلے ہی بھارت کے مسلمان بھارتی حکومت سے متنفر ہو چکے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کے جس جج نے یہ فیصلہ سنایا اس میں سے صرف ایک جج مسلمان تھا جس کے باعث بابری مسجد کا فیصلہ حقائق کے برعکس صرف تعصب کی بنیاد پر کیا گیا۔ بھارتی عدالت عظمی نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کے لئے تین ماہ میں ٹرسٹ قائم کیا جائے جبکہ مسلمانوں سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں 5 ایکڑ کی متبادل زمین الاٹ کی جائے۔
بھارتی عدالت عظمی نے اپنے بیان میں کہا کہ بابری مسجد کو گرانا اور یہاں بت تعمیر کرنا غیر قانونی ہے کیونکہ مسلمانوں کی نماز کے شواہد ملے ہیں جو انہوں نے بابری مسجد کے اندرونی حصے میں ادا کی ہیں۔ مزید کہا کہ عدالت نہیں چاہتی کہ عقیدے یا مذہب کے لئے بات کرے، قانون کی نظر میں سب مذہب برابر ہیں۔
عدالت نے کہا کہ بابری مسجد کی تعمیر خالی پالٹ میں نہیں ہوئی بلکہ اس سے پہلے نیچے تعمیرات موجود تھیں اور تاریخ کے مطابق یہ جگہ رام کی ہیدائش کی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اس زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم فیا جس میں سے ایک حصہ مندر کے لئے دوسرا مسلمانوں کے سنی وقف بورڈ کے لئے جبکہ تیسرا حصہ نرموہی اکھارے کے لئے
بھارتی عدالت عظمی کے اس فیصلے کے خلاف 14 اپیلیں دائر کی گئی تھیں جبکہ عدالت عظمی کا فیصلہ جوں کا توں باقی ہے۔