حکومتِ پاکستان آج (ہفتہ) 27ویں آئینی ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کرنے جا رہی ہے جو ملک کے نظامِ حکومت اور دفاعی ڈھانچے میں اہم تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے۔
یہ ترمیمی بل وفاقی کابینہ نے ایک مختصر اجلاس میں منظور کیا جس کی صدارت وزیراعظم شہباز شریف نے باکو، آذربائیجان سے ویڈیو لنک کے ذریعے کی۔ اجلاس میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی وزیراعظم کے ہمراہ موجود تھے۔
27ویں آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد دو نئے اقدامات کو متعارف کرانا ہے:
- ایک آئینی عدالت کا قیام
- ایک نئے کمانڈر آف ڈیفنس فورسز کے عہدے کی تشکیل
27ویں آئینی ترمیم کیا ہے؟
یہ ترمیمی بل آئین میں ایسی تبدیلیاں تجویز کرتا ہے جن سے عدلیہ اور مسلح افواج کے درمیان بہتر ہم آہنگی اور نظم و ضبط قائم کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق ترمیم کے تحت سب سے پہلے یہ بل سینیٹ کمیٹی کو غور کے لیے بھیجا جائے گا جس کے بعد اسے 10 نومبر کو سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
بعد ازاں، یہ بل 14 نومبر کو قومی اسمبلی میں بحث کے لیے رکھا جائے گا، جہاں اسے منظور کرنے کے لیے 224 ووٹ درکار ہوں گے۔
1. آئینی عدالت کا قیام
27ویں ترمیم کی سب سے نمایاں شق آئینی عدالت (Constitutional Court) کے قیام سے متعلق ہے۔
یہ خیال دراصل 2006 کے چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان طے پایا تھا لیکن اب اسے عملی شکل دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
آئینی عدالت صرف آئینی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کرے گی تاکہ سپریم کورٹ پر بوجھ کم ہو اور آئینی تنازعات کا جلد فیصلہ ممکن ہو۔
آئینی عدالت کی اہم خصوصیات:
- ججوں کی تعداد: ابتدائی طور پر 7
- ریٹائرمنٹ کی عمر: 68 سال (سپریم کورٹ کے ججوں سے 3 سال زیادہ)
- تشکیل: 5 جج سپریم کورٹ سے اور باقی چند ہائی کورٹ سے لیے جائیں گے
- ممکنہ سربراہ: جسٹس امین الدین خان کے نام پر غور جاری ہے
عدالت کے ممکنہ مقامات:
- اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت (ہائی کورٹ کو جی-9 کے سابقہ مقام پر منتقل کیا جا سکتا ہے)
- وفاقی شرعی عدالت کی عمارت (جہاں فیڈرل سروس ٹریبونل کو اوپر کی منزل پر منتقل کرنے کا منصوبہ ہے)
2. نیا دفاعی عہدہ : کمانڈر آف ڈیفنس فورسز
ترمیم کی دوسری اہم شق آرٹیکل 243 میں تبدیلی کے ذریعے ایک نیا عہدہ "کمانڈر آف ڈیفنس فورسز” قائم کرنے سے متعلق ہے۔
اس عہدے کا مقصد تینوں افواج پاک فوج، بحریہ اور فضائیہ کے درمیان بہتر تعاون، رابطہ اور متحد کمانڈ کو یقینی بنانا ہے۔
اس عہدے کے لیے واضح مدتِ ملازمت اور ذمہ داریاں متعین کی جائیں گی تاکہ دفاعی پالیسیوں میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔
حکومتی منظوری اور اتحادی جماعتوں سے مشاورت
اجلاس کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کابینہ کو ترمیم کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
وفاقی کابینہ نے پیپلز پارٹی کی تجاویز پر بھی غور کے بعد اس بل کو باضابطہ طور پر منظور کر لیا۔
تاہم اتحادی جماعتوں کے درمیان مذاکرات اب بھی جاری ہیں تاکہ نئی آئینی عدالت اور دفاعی عہدے سے متعلق انتظامی نکات پر حتمی اتفاق ہو سکے۔
27ویں آئینی ترمیم کو حالیہ برسوں کی سب سے اہم ادارہ جاتی اصلاحات میں شمار کیا جا رہا ہے۔
اس ترمیم کے ذریعے حکومت کا مقصد ملک کے نظامِ عدل اور دفاعی نظم کو جدید تقاضوں کے مطابق بنانا ہے۔
اگر یہ ترمیم منظور ہو جاتی ہے تو یہ نہ صرف پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرے گی بلکہ ملک کے دفاعی ڈھانچے میں بھی بنیادی تبدیلیوں کا آغاز بن سکتی ہے۔






