حکومتِ پاکستان نے ہفتے کے روز اعلان کیا ہے کہ وہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026 کے نوبیل امن انعام کے لیے باضابطہ طور پر نامزد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ فیصلہ حالیہ پاک-بھارت جنگ کے دوران ٹرمپ کے اہم سفارتی کردار کے اعتراف میں کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کردہ سرکاری بیان میں حکومت نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری نے بھارت کی بلا اشتعال جارحیت کو دیکھاہے جس نے پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کی ہے اور اس کے نتیجے میں خواتین، بچوں اور بزرگوں سمیت کئی بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے ہیں ۔ اس کے جواب میں پاکستان نے آپریشن بنیان المرصوص کا آغاز کیا جو ایک زبردست فوجی اقدام تھا جس کا مقصد شہری آبادی کو نقصان پہنچائے بغیر علاقائی دفاع تھا۔
حکومت نے مزید کہا ہے کہ جب صورت حال تیزی سے بگڑ رہی تھی تب ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں سے سفارتی روابط قائم کیے۔ حکومت کے مطابق ٹرمپ کی اس مداخلت نے حکمت اور قیادت کا مظاہرہ کیا اور خطے میں امن کی جانب ایک بڑا اقدام ثابت ہوئی۔
پاکستان نے ٹرمپ کی ماضی میں مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کو بھی سراہا اور کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ حکومت نے ٹرمپ کی سفارتی کوششوں کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ غزہ کے تنازع اور ایران کے ساتھ کشیدگی جیسے دیگر عالمی بحرانوں میں بھی قابل تعریف قرار دیاہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس اعلان پر اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ردعمل دیتے ہوئے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ ان کی امن قائم کرنے کی کوششوں کو نوبیل کمیٹی نے تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان، سربیا اور کوسوو کے درمیان تنازعات ختم کروانے اور مصر اور ایتھوپیا کے مابین امن قائم رکھنے پر نوبیل انعام کے حقدار ہیں۔ ٹرمپ جو اکثر نوبیل امن انعام حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں نے ایک بار پھر اس بات پر تنقید کی کہ سابق صدر باراک اوباما کو 2009 میں یہ انعام دیا گیا جبکہ ان کے بقول اوباما اس کے اہل نہیں تھے۔
اگرچہ پاکستان کسی بھی شخصیت کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے کا حق رکھتا ہے تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ عالمی برادری اس اقدام پر کیا ردعمل دیتی ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور بھارت نے بھی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں : بھارت کی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد شملہ معاہدہ قابلِ عمل نہیں رہا: خواجہ آصف