معاشی استحکام پر ایک نظر
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرقیادت حکومت کو معاشی استحکام کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرضہ پروگرام کی بحالی ضروری ہے جبکہ دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے مقرر کردہ "سخت شرائط” حکمران اتحاد کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
جب اپریل 2022 میں عمران خان کی برطرفی کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اقتدار سنبھالا تو آئی ایم ایف پروگرام کی معطلی کی وجہ سے ملک مالی بحران کا شکار تھا اور اسے بحال کرنے کے لیے حکومت نے کچھ مشکل اقدامات اٹھائے۔
اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی اقتصادی ٹیم نے بھرپور کوششوں کے بعد اگست کے آخر میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے اقدامات نے اتحادی حکومت کے لیے معاملات کو مشکل بنا دیا۔
یہ بھی پڑھیں | عمران خان کراچی کی تمام نشستوں پر ضمنی الیکشن لڑیں گے
یہ بھی پڑھیں | مجھے قتل کرنے کا پلان سی آصف زرداری نے بنایا، عمران خان کا الزام
اسحاق ڈار مفتاح کی پالیسیوں سے متفق نہیں
ایسا لگتا تھا کہ حکومت کے اندر یہ سمجھ بوجھ موجود ہے کہ یہ اقدامات ضروری ہیں تاہم، اسحاق ڈار مفتاح کی پالیسیوں سے متفق نہیں تھے اور بالآخر پارٹی قیادت کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ ملک کو آئی ایم ایف کے بغیر بحران بحران سے نکال سکتے ہیں۔
ستمبر میں وزیر خزانہ کا قلمدان ملنے کے بعد اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ وہ آئی ایم ایف سے نمٹنے کا طریقہ جانتے ہیں اور مالی امداد کے دیگر ذرائع کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اسحاق ڈار کی کوششیں ناکام رہیں
لیکن ان کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں اور حکومت آئی ایم ایف کے تمام مطالبات ماننے پر راضی ہوگئی جس سے ملک میں اسحاق ڈار کی معیشت کو ٹھیک کرنے کی پالیسیوں پر بحث شروع ہوگئی۔
مفتاح اسماعیل نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ فیصلے پہلے کر لیے جاتے تو پاکستان اب کی نسبت بہتر پوزیشن میں ہوتا۔
یہی سوال مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے بھی کیا۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر ن لیگ بھی اسحاق ڈار سے خوش نہیں ہے۔