کوئٹہ دھماکے کا پس منظر
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر نو نومبر 2024 کو ایک دھماکہ ہوا جس میں کم از کم 24 افراد جاں بحق اور 46 زخمی ہوئے۔ یہ دھماکہ اُس وقت ہوا جب پلیٹ فارم پر مسافر، پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس میں سوار ہونے کے لیے جمع تھے۔ دھماکے نے پورے ریلوے اسٹیشن کو ہلا کر رکھ دیا جس سے چھت اور ارد گرد کا علاقہ شدید متاثر ہوا۔
کوئٹہ دھماکے کی نوعیت اور ذمہ داری
کوئٹہ ڈویژن کے کمشنر حمزہ شفقات نے بتایا کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا جس کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (BLA) نے قبول کی ہے۔ بی ایل اے ایک بلوچ علیحدگی پسند گروہ ہے جو بلوچستان کی حقوق کی تحریک کے نام پر عسکری کارروائیاں کرتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے سامان میں دھماکہ خیز مواد چھپا کر ریلوے اسٹیشن میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی جو وہاں موجود سیکیورٹی کو چکمہ دینے میں کامیاب رہا۔
متاثرین اور امدادی کارروائیاں
دھماکے کے فوری بعد ریسکیو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر علاقے کو سیل کیا اور متاثرین کو کوئٹہ کے سول ہسپتال منتقل کیا۔ سول ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اضافی طبی عملے کو فوری طلب کیا گیا تاکہ زخمیوں کا علاج کیا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان، سرفراز بگٹی نے واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور فوری تحقیقات کا حکم دیا۔ انہوں نے حملے کو “معصوم شہریوں پر وحشیانہ حملہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
بلوچستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 2024 کے ابتدائی نو ماہ میں پاکستان بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں 90 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند تحریک کے باعث حملے بڑھ گئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ حملے بلوچستان میں جاری شورش کو بڑھاوا دیتے ہیں، جو صوبے کے وسائل کی مبینہ ناانصافی پر مبنی ہے۔