کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ کو زہر دیا گیا
نگراں وزیر صحت پنجاب پروفیسر جاوید اکرام نے دعویٰ کیا ہے کہ ممکنہ طور پر گھریلو ملازمہ رضوانہ کو زہر دیا گیا تھا لیکن ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر صحت نے کہا کہ متاثرہ نوعمر رضوانہ کی حالت بتدریج بہتر ہو رہی ہے لیکن ان کی صحت تاحال غیر یقینی ہے کیونکہ اس کے جسم میں خون کی شدید کمی ہے اور آج اسے خون دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت رضوانہ کی جان بچانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور محکمہ سماجی بہبود نے ان کی ذمہ داری لی ہے۔
رضوانہ کو بحالی گھر بھیجا جائے گا
انہوں نے مزید کہا کہ رضوانہ کو بحالی گھر بھیجا جائے گا۔ پروفیسر جاوید اکرام نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ وہ 6 ماہ تک تشدد برداشت کرتی رہی تاہم حکام ملزمان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کریں گے۔
قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے رضوانہ تشدد کیس کا نوٹس لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی سے گھریلو ملازمہ پر تشدد کی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔
یہ بھی پڑھیں | باجوڑ: خودکش دھماکے کے شہداء کی تعداد 45 ہو گئی
واقعہ کیا ہوا؟
اسلام آباد میں سول جج کی اہلیہ نے 14 سالہ ملازمہ کو مبینہ طور پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد لڑکی کے والدین کی جانب سے مقامی تھانے میں مقدمہ درج کرایا گیا۔ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی سرگودھا میں تعینات سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ نے مبینہ طور پر اپنی ملازمہ رضوانہ پر طلائی زیورات چوری کرنے کا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بنایا۔
متاثرہ ملازمہ کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ لڑکی اسلام آباد میں سول جج کے گھر 6 ماہ سے ملازمہ کے طور پر کام کر رہی تھی اور اسے سول جج کی اہلیہ نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مالکان نے لڑکی کو تنخواہ کا ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ لڑکی کے چہرے اور جسم پر تشدد کے 15 سے زائد نشانات پائے گئے ہیں۔ شدید زخمی ملازمہ کو طبی امداد کے لیے فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر (ڈی ایچ کیو) ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
ڈی ایچ کیو ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بچی کو مزید علاج کے لیے لاہور ہسپتال ریفر کر دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تشدد کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانے میں درج کیا جائے گا۔