کشمیر کا مسئلہ پچھلی کئی دہائیوں سے جوں کا توں باقی ہے۔ پچھلے دنوں چین کا کشمیری علاقے لداخ میں داخل ہونا اب صرف بھارت اور پاکستان کے علاوہ کئی اور حکومتوں کی دلچسپی کا باعث بن چکا ہے۔ جو حکومتیں اب تک مسئلہ کشمیر پر خاموش تماشائی بن کر بیٹھی تھیں اب انہوں نے بھی اس میں دلچسپی ظاہر کرنا شروع کر دی ہے۔
حال ہی میں امریکی ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت نیز چین اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر مصالحت کروانے کی پیشکش کی ہے جس پر روس کے بھی کان کھڑے ہو گئے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ اب تین ممالک سے براہ راست جڑ کر رہ گیا ہے جبکہ پچھلے کئی ماہ سے وہاں جاری غیر قانونی لاک ڈاؤن اور غیر انسانی سلوک سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
باخبر زرائع سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ گزشتہ ہفتے میں امریکہ اور کینیڈا کی جانب سے سرکاری طور پر رجسٹرڈ کشمیر گلوبل کونسل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس ہوا ہے جس میں کشمیر سینیٹ بنانے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
کشمیریوں کی جانب سے اس سال 28 مارچ کو سینیٹ کے قیام کی خاطر کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن کورونا وائرس کی عالمی وباء کے باعث وہ ملتوی ہو گیا۔ جبکہ کشمیر گلوبل کونسل کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس التوا کی وجہ سے انہیں اس لاک ڈاؤن میں سینیٹ کے قیام کے لئے مزید کام کرنے کا موقع مل گیا اور اس سلسلے میں کشمیریوں سے ملاقاتیں، مشورے اور ہوم ورک کیا گیا۔ کشمیر گلوبل کونسل نے سینیٹ قیام کو مرحلہ وار تشکیل کرنے کا شیڈیول جاری کیا ہے جب کہ اس شیڈیول کے مطابق تیسرے مرحلے میں سینیٹ ارکان کو ڈیلاس کانفرنس کے لئے مدعو کیا جائے گا۔
ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی سے وابستہ ایک عہدیدار نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلی بار کشمیریوں نے درست سمت قدم اٹھائے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا اس کشمیر گلوبل کونسل کو سرینگر جموں اور لداخ میں کانفرنسز منعقد کرنے کی اجازت دے گا؟ اسی طرح کیا پاکستان کی طرف سے کشمیر کونسل کو مظفر آباد اور گلگت میں کانفرنس منعقد کرنے کی اجازت ہو گی؟
کشمیر گلوبل کمیٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے کہا کہ اب ہمارا مسئلہ کسی ملک سے الحاق کا نہیں بلکہ انسانی جانیں بچانے پر آ گیا ہے کشمیر کمیٹی اہنا مسئلہ خود اقوام عالم میں لڑے گی۔