منگل کو جامعہ کراچی کے اندر ایک وین میں دھماکے سے کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں دو چینی زبان کے استاد بھی شامل ہیں۔
علیحدگی پسند گروپ، بلوچ لبرل آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ حملہ ایک خاتون خودکش بمبار نے کیا ہے۔ اس گروپ نے دو بچوں کے ساتھ ایک لمبی شال میں ملبوس اس کی تصویر بھی شیئر کی ہیں۔
کراچی پولیس کے سربراہ غلام نبی میمن نے جیو نیوز ٹی وی کو بتایا کہ ہمیں جو معلومات ملی ہیں وہ یہ ہیں کہ خاتون بمبار غالباً یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ سیاہ لباس میں ملبوس ایک خاتون کی سی سی ٹی وی فوٹیج ملی ہے جس میں بم پھٹنے سے پہلے وہ وین کے پاس کھڑی ہے۔
بی ایل اے نے دعویٰ کیا کہ وہ گروپ کی پہلی خاتون خودکش بمبار تھی اور اس حملے نے بلوچ مزاحمت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں | نئی حکومت نے عید سے پہلے عوام پر بجلی کا بم گرا دیا
حملہ آور خاتون نے حملے سے پہلے ٹویٹر پر اپنے دوستوں کو الوداع کہا۔ خاتون کے شوہر نے جس کی شناخت شری بلوچ کے نام سے ہوئی ہے نے کہا کہ وہ حیران ہیں لیکن ان کو بیوی کے کیے پر فخر ہے۔ شری کے شوہر ہیبتن بشیر بلوچ نے نامعلوم مقام سے ٹویٹ کیا۔ اس نے انکشاف کیا کہ اس جوڑے کے دو بچے ہیں جن کی عمریں 8 اور 5 سال ہیں۔
30 سالہ خاتون نے 2 سال پہلے گروپ میں شمولیت اختیار کی اور خود کو دہشت گرد تنظیم کے لیے رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ اس نے سکول میں پڑھاتے ہوئے زولوجی میں ماسٹرز اور تعلیم میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ بلوچ کے والد سرکاری ملازم تھے۔ وہ تربت ضلع میں بطور آڈیٹر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔