پاکستانی کرنسی دن بدن گراوٹ کا شکار
روپے کی قدر گرنے کے بعد اسٹیک ہولڈرز کو تشویش ہے کہ کمزور ہوتی کرنسی پاکستانیوں کو مہنگائی کے اثرات کے ایک نئے دور کی طرف لے جا سکتی ہے جس سے نچلے اور متوسط طبقے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔
معیشت کا کوئی بھی شعبہ مقامی کرنسی کی قدر میں زبردست کمی کے نتیجہ سے محفوظ نہیں رہے گا۔ پاکستانی کرنسی اس سال دنیا میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسیوں میں سے ایک ہے۔
روپیہ کی قدر ماضی میں بھی بڑھتی اور کم ہوتی رہتی ہے اور یہ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہو گی لیکن اس دفعہ کچھ زیادہ ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں | مولانا فضل الرحمن کا عدلیہ پر عمران خان کی سہولت کاری کا الزام
ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر کیوں گر رہی ہے؟
تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ سرمایہ پاکستان سے جا رہا ہے کیونکہ یہ خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) بیل آؤٹ نہیں دے گا جو ملک کو جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال میں ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے شبہ ظاہر کیا کہ سیاسی بے چینی ممکنہ طور پر فنڈ میں اضافے کی ایک وجہ ہے کیونکہ امداد نومبر سے روک دی گئی ہے۔
انہوں نے روپے پر سیاسی صورتحال کے اثرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو گزشتہ اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے ملک غیر مستحکم ہے۔
اس ماہ عمران خان کی گرفتاری نے ان کے اور حکومت کے ساتھ ساتھ فوج کے درمیان محاذ آرائی کو بڑھا دیا ہے۔
کراچی میں پریمیئر فنانشل سروسز پرائیویٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عادل غفار نے بھی بلومبرگ کو بتایا کہ اگر پاکستان قرض حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو جون میں روپیہ 350 فی ڈالر تک جا سکتا ہے۔
کراچی کے ایک ماہر معاشیات فاروق پاشا نے کہا کہ روپے کی رفتار کافی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات تک صورتحال ایسی ہی رہے گی۔