اکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) نے ٹیلی نار پاکستان کو خریدنے کے معاملے پر کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کو ایک تفصیلی کاروباری منصوبہ پیش کر دیا ہے۔ یہ قدم منظوری کے عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگرچہ سی سی پی پہلے ہی اس انضمام کی مشروط منظوری دے چکا ہے مگر بعض شرائط پوری کرنا اب بھی ضروری ہے۔
کمیشن کی جانب سے سب سے بڑا اعتراض پی ٹی سی ایل کے مالی نقصان سے متعلق تھا۔ اگرچہ کمپنی مسلسل خسارے میں جا رہی ہے پھر بھی سی سی پی نے مشروط اجازت دی ہے کہ اگر پی ٹی سی ایل ملک میں ٹیلیکام شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے تو وہ آگے بڑھ سکتا ہے۔
مسابقتی کمیشن نے پی ٹی سی ایل اور ٹیلی نار کے انضمام پر وضاحتیں طلب کرتے ہوئے انتظامیہ کو مزید معلومات جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔https://t.co/ZE0EUUr8NE#PTCLTelenorMerger #CCPNotice #TelecomUpdate pic.twitter.com/Y6VN36RD8g
— Aftab Maken (@AftabMaken) August 5, 2025
یہ سماعت سی سی پی کے چیئرمین ڈاکٹر کبیر احمد صدیقی کی سربراہی میں ہوئی جس میں اراکین سلمان امین اور عبدالرشید شیخ بھی شامل تھے۔ سی سی پی نے پی ٹی سی ایل سے اس سے پہلے کاروباری منصوبہ دوبارہ جمع کروانے کا کہا تھا تاکہ کچھ اہم نکات پر وضاحت دی جا سکے جیسے کہ انضمام کا مسابقت پر کیا اثر پڑے گا اور صارفین کو کیا فرق محسوس ہوگا۔
پی ٹی سی ایل کے نمائندوں نے تفصیل سے بتایا کہ یہ انضمام کمپنی کی کارکردگی بہتر بنائے گا لاگت کم کرے گا اور ریگولیٹری اصولوں کے مطابق ہوگا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ ٹیلی نار، یوفون اور پی ٹی سی ایل کو اکٹھا کرنے سے اضافی ڈھانچ جیسے دہرے ٹاورز اور دفاتر کو ختم کر کے اخراجات بچائے جا سکیں گے۔
سی سی پی نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا کہ اتنی بڑی سرمایہ کاری کے لیے فنڈ کہاں سے آئیں گے؟ اور کیا تینوں ادارے مل کر مزید وسعت حاصل کریں گے؟ پی ٹی سی ایل نے یقین دہانی کرائی کہ اداروں کے انضمام سے آپریشنز میں بہتری آئے گی اور کام زیادہ مؤثر انداز میں ہوگا۔
ایک اور نکتہ جس پر گفتگو ہوئی وہ یہ تھا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے پی ٹی سی ایل کو ٹیلیکام سیکٹر کے 11 میں سے 6 شعبوں میں ‘اہم مارکیٹ کھلاڑی’ قرار دیا ہے۔ پی ٹی سی ایل اس فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر چکا ہے۔
سی سی پی نے پی ٹی سی ایل کے مالی حالات پر بھی سوالات کیے۔ جہاں زونگ، جاز اور ٹیلی نار جیسے نجی ادارے منافع میں ہیں وہیں پی ٹی سی ایل مسلسل خسارے کا شکار ہے۔ اس کی ذیلی کمپنی یوفون بھی کافی عرصے سے نقصان میں جا رہی ہے۔
پی ٹی سی ایل گروپ جو یو بینک (ایک مائیکروفنانس بینک) کا بھی مالک ہے سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ مزید وضاحتیں آئندہ دنوں میں پیش کرے گا۔ یاد رہے کہ ٹیلی نار نے دسمبر 2024 میں اس مجوزہ معاہدے کا اعلان کیا تھا تاہم اب تک اسے مکمل ریگولیٹری منظوری نہیں ملی۔
پی ٹی سی ایل ایک سرکاری ملکیت ادارہ ہے جس میں حکومت پاکستان کا 62 فیصد حصہ ہے۔ 12 فیصد شیئرز اسٹاک مارکیٹ میں عوامی سطح پر دستیاب ہیں جبکہ 2006 میں یو اے ای کی کمپنی اتصالات نے 26 فیصد شیئرز خرید کر ادارے کا انتظام سنبھالا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2005-06 میں پی ٹی سی ایل نے 20.78 ارب روپے کا منافع کمایا تھا مگر اس کے بعد سے کمپنی مسلسل نقصان میں ہے۔
وزارتِ خزانہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024-24 کی پہلی ششماہی میں پی ٹی سی ایل ساتویں سب سے زیادہ نقصان کرنے والا سرکاری ادارہ رہا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ادارے پر پنشن کی ذمہ داریاں 42.84 ارب روپے تک پہنچ چکی ہیں۔
اس معاہدے کے پیچیدہ ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ وزارت خزانہ نے خبردار کیا ہے کہ ٹیلی نار، یوفون اور پی ٹی سی ایل کے نظام عملے اور آپریشنز کو ایک کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ انضمام اندرونی اختلافات، سروس میں خلل اور صارفین کی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔
ٹیلی نار گروپ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بنگلہ دیش میں ‘گریمن فون‘ (55.8 فیصد ملکیت)، ملائیشیا میں ‘سیلکام ڈیجی‘ (33.1 فیصد) اور تھائی لینڈ میں ‘ٹرو کارپوریشن‘ (30.3 فیصد) جیسے اداروں کا بھی مالک ہے۔ اس کے دفاتر سنگاپور اور بینکاک میں بھی موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پریمیئر لیگ سیزن 2025-26 دیکھنے کے لیے مکمل اسٹریمنگ گائیڈ