پاکستان نے توانائی کے بحران، آلودگی کے مسائل اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ پاکستان کا ہدف ہے کہ 2030 تک 30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک ہوں جو توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع پر انحصار کو بڑھانے اور فوسل فیول سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
حکومتی منصوبہ اور اقدامات
وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے بین الاقوامی کانفرنس “فیوچر انرجی ایشیا 2024” میں پاکستان کے اس عزم کو اجاگر کیا۔ یہ کانفرنس تھائی لینڈ میں منعقد ہوئی جس کا موضوع “پاکستان میں صاف توانائی کے مواقع” تھا۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ پاکستان کی قومی بجلی پالیسی 2021 میں 60 فیصد قابل تجدید توانائی اور 30 فیصد الیکٹرک گاڑیوں کے ہدف کو شامل کیا گیا ہے۔
مزید برآں، حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے رعایتی پالیسیاں متعارف کرانے اور انفراسٹرکچر کی ترقی کا اعلان کیا ہے، جیسا کہ چارجنگ اسٹیشنز کی تعمیر۔ یہ اقدامات شہریوں کو الیکٹرک گاڑیوں کی طرف راغب کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے ۔
چیلنجز اور مواقع
اس ہدف کو حاصل کرنے کے راستے میں متعدد رکاوٹیں موجود ہیں جیسے مالی وسائل کی کمی اور ریگولیٹری مسائل۔ پنجاب اور سندھ میں الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن کے مسائل بھی اس پیش رفت میں تاخیر کا باعث بن رہے ہیں۔ تاہم، ملکی ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ہدف قابلِ حصول ہے اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر سرمایہ کاری کریں اور مربوط پالیسیاں نافذ کریں ۔
ماحولیاتی اثرات
ٹرانسپورٹیشن سیکٹر پاکستان میں فضائی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہے جس میں لاہور جیسے شہروں میں 83 فیصد آلودگی گاڑیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال سے نہ صرف آلودگی میں کمی آئے گی بلکہ ایندھن کی درآمدات پر انحصار بھی کم ہوگا۔