پاکستان –
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے جمعرات کو صوبے بھر کے مختلف محکموں میں ایک لاکھ آسامیوں پر بھرتیوں کی منظوری دے دی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ریکروٹمنٹ پالیسی کے مطابق بھرتی کا عمل شفاف اور خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر ہوگا۔ عثمان بزدار نے ایڈہاک ڈاکٹروں کو تنخواہوں کی ادائیگی میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کا بھی حکم دیا اور ہدایت کی کہ تنخواہوں کی ادائیگی میں کوئی تاخیر نہ کی جائے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی حسن خاور نے میڈیا کو خالی آسامیوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے بتایا کہ محکمہ تعلیم میں 33 ہزار خالی آسامیوں میں سے 16 ہزار کو پہلے مرحلے میں پر کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ پرائمری ہیلتھ کیئر میں 1200 خالی آسامیاں، سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر 2900، ہائر ایجوکیشن 2600، کالج ٹیچرز انٹرنز 3500، سول ڈیفنس 1200، محکمہ جیل خانہ جات میں 4300 اور پٹواریوں کی 4800 آسامیاں مرحلہ وار پر کی جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں | مینار پاکستان واقعہ: کیا واقعی عائشہ اکرم اور ریمبو بھاری رقم بٹور چکے ہیں؟
اس کے علاوہ پولیس اور بارڈر ملٹری پولیس میں 12 ہزار سے زائد آسامیاں پُر کی جائیں گی۔ ایس اے سی ایم نے کہا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ڈاکٹروں کو درپیش مشکلات کا سخت نوٹس لیا ہے اور بغیر کسی رکاوٹ کے ان کی تنخواہیں ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
حسن خاور نے کہا کہ ترقی کے سفر کا آغاز ایک لاکھ نوکریوں سے ہوا ہے اور وزیراعلیٰ نے ہاؤسنگ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، لوکل گورنمنٹ اور دیگر مختلف محکموں میں آسامیاں بھرنے کے لیے ضروری کارروائی شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتظامی بنیادوں پر تبادلے اور تعیناتیاں صوبے کے چیف ایگزیکٹو کا استحقاق ہے اور جو بھی افسر کارکردگی نہیں دکھائے گا اسے اپنی سیٹ پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نوکریوں کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔
حسن خاور نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے قانونی معاملات عدلیہ نمٹاتی ہے جبکہ انتظامی معاملات حکومت کی ذمہ داری ہیں۔ امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے پنجاب حکومت نے دھرنے سے قبل مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے کر امن کی جانب ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیوٹی کے دوران شہید ہونے والوں کے ورثاء کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پولیس افسران اور جوانوں کی تعریف کی جانی چاہیے نہ کہ تنقید۔