سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹویٹر) کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ ان کے تحفظات پر کام کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ 17 فروری 2024 سے ایکس سابقہ ٹویٹر کی سروسز پاکستان میں بند ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں ایکس پر پابندی کے بعد ایکس کے گلوبل گورنمنٹ افیئرز ڈیپارٹمنٹ نے اس متعلق اپنا پہلا بیان دیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافیوں کی تنظیموں نے سوشل میڈیا پر پابندی کی مذمت کی ہے جبکہ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اداروں نے بھی اس سے نقصانات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ نے بھی پاکستان سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سے پابندیاں ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ مارچ میں وزارت داخلہ نے سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) کو آگاہ کیا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس پر مزید احکامات تک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کو بلاک کر دیا گیا ہے۔
سندھ ہوئی کورٹ نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ یا تو ایکس کے بند ہونے کا جواز پیش کرے یا 17 فروری کو ایکس پر پابندی لگانے کی ہدایت کرنے والے خط کو واپس لے۔
پابندی کو چیلنج کرنے والے ایک وکیل عبدالمعیز جعفری نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کو خط واپس لینے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا تھا۔
پاکستان میں ایکس / ٹویٹر بند ہونے کی وجہ
دریں اثنا، وزارت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے ایک تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی جس میں بتایا گیا کہ ایکس پر پابندی قومی سلامتی اور امن عامہ کو برقرار رکھنے اور قوم کی سالمیت کے تحفظ کے لیے کی گئی ہے۔
آئی ایچ سی کے چیف جسٹس عامر فاروق کے سامنے پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہے اور نہ ہی اس پر پاکستانی قوانین کی تعمیل کرنے کی کوئی ذمہ داری ہے۔
اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ذریعے متعدد درخواستیں بھیجنے کے بعد ایکس نے پاکستانی حکام کی درخواستوں کی تعمیل نہیں کی جس بنیاد پر اسے بند کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایف آئی اے کے ونگ نے سیکڑوں ٹویٹر اکاؤنٹس کے خلاف متعدد ایف آئی آرز درج کرنا شروع کی ہیں۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ پاکستانی قوانین اور اقدار کی خلاف ورزی کرنے والے مواد سے نمٹنے میں ٹویٹر/ایکس حکام کی جانب سے تعاون کا فقدان ہمیں جواز فراہم کرتا ہے کہ ہم اسے تاوقت مناسب بند کر دیں۔