امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں غزہ کی پٹی پر "امریکی قبضے” کا منصوبہ پیش کیا ہے، جس میں فلسطینیوں کو مجبوراً علاقے سے نکالنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ان کے اس بیان نے دنیا بھر میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، اور کئی عالمی رہنماؤں، تنظیموں اور ماہرین نے اسے نسلی صفائی کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد غزہ کی پٹی کی تعمیر نو اور اقتصادی بحالی کا دعویٰ کیا گیا، تاہم فلسطینیوں کے لیے اس کا مطلب اپنے وطن سے بے دخل ہونے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔
حماس کا شدید ردعمل
حماس کے رہنماؤں نے اس منصوبے کی سخت مخالفت کی ہے اور اسے فلسطینیوں کی "نسلی صفائی” کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔ حماس کے ترجمان، عبد اللطیف القنُو نے کہا کہ ٹرمپ کا موقف اسرائیلی دائیں بازو کے موقف کے مطابق ہے، جو فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال کر ان کی جگہ پر قبضہ کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، غزہ کے لوگ اپنی سرزمین سے بے دخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اور ایسا منصوبہ خطے میں مزید بدامنی کا سبب بنے گا۔
فلسطینی آزادی تنظیم (PLO) اور فلسطینی قیادت کا ردعمل
فلسطینی آزادی تنظیم کے سیکریٹری جنرل حسین الشیخ نے اس منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام اپنے وطن سے بے دخل ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرے اور فلسطین میں ایک آزاد ریاست کے قیام کی حمایت کرے۔
عرب دنیا کا موقف
سعودی عرب نے ٹرمپ کے منصوبے کی سخت مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آتا۔ سعودی عرب نے واضح کیا کہ فلسطینیوں کی بے دخلی کے کسی بھی اقدام کو مسترد کیا جائے گا۔
امریکہ میں سیاسی ردعمل
امریکی سیاستدانوں نے بھی ٹرمپ کے منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سینیٹر کرس مرفی نے کہا کہ "غزہ میں امریکی فوجی مداخلت سے ہزاروں امریکی فوجی ہلاک ہو سکتے ہیں اور یہ ایک طویل جنگ کا آغاز ہوگا۔” سینیٹر کرس وان ہولن نے ٹرمپ کے منصوبے کو "نسلی صفائی” سے تشبیہ دی اور کہا کہ یہ امریکا کی دیرینہ پالیسی کے برعکس ہے جو دو ریاستی حل کی حمایت کرتی ہے۔
سی اے آئی آر (Council on American-Islamic Relations) نے ٹرمپ کے منصوبے کو "انسانی حقوق کی خلاف ورزی” اور "بین الاقوامی قانون کی پامالی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کیا گیا، تو یہ عالمی سطح پر ایک سنگین بحران کا باعث بنے گا۔
عالمی ردعمل
روس اور چین نے بھی اس منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ یہ منصوبہ فلسطینیوں کے خلاف ایک "اجتماعی سزا” کے مترادف ہے اور اسے مسترد کرتے ہیں۔ چینی وزارت خارجہ نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے عوام کو اپنی سرزمین پر رہنے کا حق حاصل ہے اور عالمی برادری کو فلسطین کے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے بھی ٹرمپ کے بیان کو "ناقابل قبول” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر فلسطینیوں کو نظرانداز کیا گیا تو یہ مزید تنازعات کو جنم دے گا۔
دنیا بھر سے آنے والے ان ردعملوں کے بعد، ٹرمپ کی تجویز عالمی سطح پر ایک سنجیدہ بحران کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اگر اس منصوبے پر عمل درآمد کیا گیا، تو یہ نہ صرف فلسطینیوں کے لیے ایک نیا المیہ ہوگا بلکہ پورے خطے میں مزید کشیدگی اور بدامنی کو جنم دے سکتا ہے۔ عالمی برادری کے لیے اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا وہ اس معاملے میں یکجہتی کے ساتھ فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرے گی یا پھر ایسے کسی بھی منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کرے گی۔