امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیر ملکی امداد پر عائد کی جانے والی پابندیوں نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑادی ہے۔ امریکہ، جو کہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی امداد فراہم کرنے والا ملک ہے، نے 2024 میں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی امداد کا 42% فراہم کیا، جس کی مالیت 13.9 ارب ڈالر تک پہنچتی ہے۔ ٹرمپ نے حال ہی میں امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) کے ذریعے فراہم کی جانے والی امداد کو 90 دنوں کے لیے معطل کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ یہ امداد "امریکہ فرسٹ” کی پالیسی کے مطابق ہے یا نہیں۔
امداد کی معطلی کے اثرات
یہ پابندیاں مختلف ممالک میں چل رہے متعدد اہم پروگرامز کو متاثر کر رہی ہیں، جن میں تھائی لینڈ کے پناہ گزین کیمپوں میں میدان میں کام کرنے والے ہسپتال، جنگ زدہ علاقوں میں بارودی سرنگوں کا صفایا اور ایچ آئی وی کے مریضوں کے لیے ادویات شامل ہیں۔ اگر یہ پابندیاں مستقل ہو گئیں تو عالمی انسانی امدادی ادارے، بشمول اقوام متحدہ، اپنی بنیادی خدمات جیسے کہ کھانا، پناہ گزینی اور صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی میں شدید مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔
امداد کی معطلی کا عالمی سطح پر اثر
امریکہ کی اس امداد کی معطلی کا سب سے زیادہ اثر کمزور اور یتیم بچوں پر پڑے گا، جو کہ HIV اور دیگر بیماریوں کا شکار ہیں۔ یہ پابندیاں ایسے اداروں کو بھی متاثر کر رہی ہیں جو 6.5 ملین یتیم بچوں کی مدد کر رہے ہیں۔ عالمی خوراک پروگرام (WFP) کے افغانستان میں نمائندہ ہشاؤ-وی لی نے کہا کہ امریکی امداد کے بغیر، کئی افغان شہری صرف روٹی اور چائے پر گزارہ کر رہے ہیں۔
اس پابندی کے نتیجے میں کئی غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) عوامی عطیات پر انحصار کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں تاکہ فنڈز کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ فری لینڈ فاؤنڈیشن جیسے گروہ نے اس 90 دن کی معطلی سے بچنے کے لیے فنڈریزنگ کی مہم شروع کی ہے۔
ٹرمپ کی پالیسی کے مقاصد اور اس کے اثرات
امریکہ کی طرف سے امداد کی فراہمی میں کمی کی وجہ "امریکہ فرسٹ” کی پالیسی بتائی جا رہی ہے، جس کا مقصد امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں کی بہتر استعمال کو یقینی بنانا ہے۔ امریکی ریاستی محکمہ کے مطابق، "یہ فیصلہ امریکہ کے مفاد میں کیا گیا ہے، جہاں ہمیں یقین ہے کہ ہر امداد کو اس کے نتائج اور فائدے کے مطابق ہونا چاہیے۔”
مستقبل کے چیلنجز
اگرچہ امریکی حکومت نے کچھ شعبوں جیسے ایمرجنسی فوڈ ایڈ کے لیے معافی فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن اس کے باوجود تعلیمی پروگرامز، بارودی سرنگوں کے صفایا، اور پناہ گزینوں کے لیے امداد میں کمی کا اثر واضح طور پر نظر آئے گا۔ یوکرین میں بھی اس پابندی کے اثرات محسوس ہو رہے ہیں جہاں تعلیمی شعبے کی تنظیمیں اس بات پر پریشان ہیں کہ امداد کی کمی کی وجہ سے ان کے منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔
امریکی امداد کی معطلی کا فیصلہ عالمی سطح پر انسانی حقوق اور عالمی ترقی کے عمل پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ ان پابندیوں کے اثرات نہ صرف پناہ گزینوں، یتیم بچوں اور معذور افراد پر پڑیں گے، بلکہ عالمی صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بھی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ عالمی برادری کو اس معطلی کے اثرات کو سمجھتے ہوئے اس کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔