وزیر اعظم عمران خان آج کل اپنے کچھ وزراء سے 25 ناراض دکھائی دے رہے ہیں جبکہ ان پر دباؤ اتنا ہے کہ ان کے لئے یوں وزراء کو فارغ کرنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔
عمران خان نے اپنے اس 22 ماہ کے گزرے دور حکومت میں کئی بار اس بات کا عزم کیا ہے وہ صرف کام والے وزراء کو رکھیں گے جو کہ عملی طور پر کام کریں گے اور نتائج دیں گے تاہم وہ اس میں سیاسی وجوہ کے باعث ناکام رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ساتھ حکمران اتحادی جماعتیں اور ان کی موجودہ پوزیشن وزیر اعظم عمران خان کو اس بات کی اجازت نہیں دے رہی کہ وہ اپنے سینئیر مگر ناکارہ وزراء کے خلاف کوئی سخت کاروائی کریں۔ شاید اس سے وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار چھن جانے کا خطرہ ہے۔
پی ٹی آئی کے زرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پارٹی کے اندر لڑائی اور نظم و ضبط کی کمی وزیر اعظم کے لئے باعث نقصان ہے لیکن ماضی کے ریکارڈ کے برعکس وہ نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے خاموش بیٹھے ہیں۔ وزیر اعظم اس وقت دباؤ کی وجہ سے کسی اتحادی یا پارٹی رہنما کو کھونا نہیں چاہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو تحریک انصاف نے اپنے پہلے 100 دنوں میں زبردست اہداف مقرر کئے گئے تھے جن پہ عمل درآمد نا ہو سکا اور نا ہی وزراء کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی۔
زرائع کے مطابق گزشتہ سال ستمبر میں وزیر اعظم عمران خان نے 27 وزارتوں کو سخت وارننگ لیٹر بھیجے تھے جس کی وجہ ان وزراء کا بروقت کام نا کرنا اور اہداف پورے نا کرنا تھا۔ اس خط کو وزیر اعظم کی جانب سے ختمی وارننگ قرار دیا گیا تھا مگر وزراء کے کام نا کرنے کے باوجود وزیر اعظم نے کسی کو معطل نہیں کیا۔
قومی اسمبلی میں پچھلے دنوں فیصل واڈا کی جانب سے اپنے ہی وزراء پر سخت تنقید ہوئی جس پر وزیر اعظم عمران خان نے انہیں خاموش رہنے کا مشورہ دیا اور اپنے وزراء کو ایک بار پھر 6 ماہ کا وقت دیا کہ اپنی کارکردگی درست کر لیں ورنہ مشکل وقت دیکھنا پڑ سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ فواد چوہدری کو وزیر اعظم عمران خان نے احتیاط سے گفتگو کرنے کا کہا اور کابینہ ارکان کو بھی تلقین دی کہ وہ آپس میں الجھنے سے پرہیز کریں۔