پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق افراط زر کی شرح مسلسل پانچویں مہینے اپنی تیز رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے اور جنوری میں 13 فیصد اضافہ کو پہنچ گئی جو کہ تقریباً دو سالوں میں مہنگائی کی بلند ترین شرح ہے۔
پاکستان نے جنوری 2020 میں افراط زر کی شرح 14.6 فیصد بتائی تھی۔
کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) ایک سال قبل اسی مہینے جنوری میں 12.96 فیصد تک بڑھ گیا تھا۔ کھانے کی چیزوں میں مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے 0.4 فیصد کا تھوڑا سا اضافہ ہوا۔
مہنگائی کی تازہ ریڈنگ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی شرح سود پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے جو اب بنیادی افراط زر کی بجائے پالیسی ریٹ کا تعین کرنے کے لیے ہیڈ لائن انفلیشن نمبر کو فالو کر رہا ہے۔
تجزیہ کاروں نے پہلے ہی مہنگائی کے ڈبل ہونے کا اندازہ لگایا تھا اور موجودہ سی پی آئی افراط زر ان کے متوقع اہداف کے مطابق ہے۔۔ انہوں نے پچھلے سال بنیادی افراط زر کم ہونے کی وجہ سے افراط زر کی شرح سال بہ سال زیادہ ہونے کی پیش گوئی کی تھی، تاہم، انہوں نے ذکر کیا تھا کہ افراط زر کی شرح تین عوامل پر منحصر ہے۔ بجلی کی قیمتیں، روپے اور ڈالر کی قدر اور بین الاقوامی اشیاء کی قیمتیں۔
یہ بھی پڑھیں | کیا بلاول بھٹو کی سیکورٹی کا مطلب صرف ہوائی سفر کرنا ہے؟
نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے اے ایچ ایل کی ایک تجزیہ کار ثنا توفیق نے کہا کہ افراط زر کی شرح مارکیٹ کی توقع کے مطابق ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال بنیادی افراط زر کم تھا۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے، تجزیہ کار نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور مقامی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے اثرات کی وجہ سے ٹرانسپورٹ انڈیکس میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماہ بہ ماہ مہنگائی کی شرح میں کمی ایک سازگار صورت حال ہے اور یہ خوراک کی افراط زر میں بہتری کی وجہ سے ہوئی ہے جس میں مسلسل دوسرے مہینے کمی ریکارڈ کی گئی۔
قومی ڈیٹا اکٹھا کرنے والے ادارے نے گزشتہ ہفتے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد مہنگائی کے تازہ ترین اعدادوشمار بتائے ہیں۔ کمیٹی نے شرح سود کو 9.75 فیصد پر برقرار رکھا ہے۔