مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں دس سال بعد پہلی بار ایک علاقائی حکومت کا انتخاب ہوا ہے۔ یہ انتخابات، جنہیں مقامی سطح پر اہم سیاسی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، 2019 کے بعد پہلی بار ہوئے ہیں جب مودی حکومت نے علاقے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ بھارت کی بی جے پی حکومت کی طرف سے کیا گیا تھا جس کے بعد پورے علاقے میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور مواصلاتی بندش نافذ کی گئی۔
ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی اتحادی جماعتوں نے واضح اکثریت حاصل کی ہے جبکہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) نے محض 29 نشستیں جیتی ہیں۔ ان نتائج کو کشمیری عوام کی جانب سے بھارتی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ سماجی کارکن اقبال احمد بھٹ کے مطابق، عوام نے بھارت کی جانب سے علاقے کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔
تاہم، بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی جماعت کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا اور انتخابات میں عوام کی شرکت کو جمہوریت پر یقین کا مظہر قرار دیا۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے بھی واضح کیا کہ عوام نے بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
اگرچہ یہ انتخابات ایک بڑی کامیابی تصور کیے جا رہے ہیں لیکن تنقید کی جا رہی ہے کہ اس اسمبلی کو محض ثقافتی اور تعلیمی امور پر محدود اختیارات حاصل ہوں گے۔ اہم قانون سازی کے اختیارات دہلی حکومت کے پاس برقرار رہیں گے جو گورنر کی تقرری سمیت اہم فیصلے کرتی رہے گی۔