مشرق وسطیٰ میں حالیہ دنوں میں کشیدگی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے خاص طور پر لبنان اور شام میں۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تنازعات کے سبب لبنان میں ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں، جبکہ لاکھوں لوگ پناہ گزین کیمپوں اور عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
اسی طرح لبنان کی اندرونی صورت حال جو پہلے ہی اقتصادی بحران، سیاسی غیر یقینی، اور عوامی خدمات کی ناکامی سے بری طرح متاثر ہے۔ ان حالات میں جنگ مزید مشکلات کا شکار ہو رہی ہے۔
شام میں جاری بحران
شام میں بھی حالات بدستور خراب ہیں، جہاں اسرائیلی حملوں میں حالیہ ہفتوں میں 33 شامی شہریوں اور حزب اللہ کے چھ لڑاکوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ان حملوں نے شام میں پہلے سے تباہ حال علاقوں میں مزید جانی اور مالی نقصان کیا ہے۔
عالمی ردعمل اور کوالیشن 10 کا اجلاس
ان حالات کے دوران، بین الاقوامی سطح پر بھی مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات پر ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں، واشنگٹن ڈی سی میں "کوالیشن 10” نامی اجلاس ہوا ہے جس میں متحدہ عرب امارات کے سفارت کار سلطان الشمسی اور دیگر ممالک کے اہم ارکان نے شرکت کی ہے۔ یہ اجلاس عالمی سطح پر داعش کے خلاف بنائی گئی اتحاد کی 10ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہوا تھا۔
یہ اجلاس امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کی دعوت پر ہواجس میں مختلف ممالک کے وزراء اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اس موقع پر عالمی اتحاد نے انتہاپسندی کے خلاف اپنے عزم کا اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ خصوصاً لبنان، شام اور فلسطین میں جاری صورتحال کا مستحکم اور پائیدار حل تلاش کرنے پر زور دیا۔
بین الاقوامی تعاون کی ضرورت
"کوالیشن 10” اجلاس کے دوران شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ مشرق وسطی میں جاری مسائل کو عالمی سطح پر حل کرنے کے لیے تعاون اور مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
متحدہ عرب امارات کے علاوہ، کئی دیگر ممالک بھی اس صورتحال میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ امریکہ کے علاوہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ بھی سفارتی سطح پر متحرک ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امن کو یقینی بنانے کے لیے مختلف سطحوں پر بات چیت کر رہے ہیں۔ فرانس نے لبنان اور شام میں انسانی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ جرمنی نے خطے میں انسانی بحران کو کم کرنے کے لیے مالی مدد کا وعدہ کیا ہے۔
یہ واضح ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی برادری کی کوششیں جاری ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کوششیں خطے میں استحکام کے قیام کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔