مریم نواز ایون فیلڈ ریفرنس میں بری
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز اور ان کی اہلیہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی چار سال قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دونوں کو بری کردیا۔
جولائی 2018 میں احتساب عدالت نے مریم کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی اور ان پر 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
جنید صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد ازاں جوڑے کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا، جس کے بعد ان کی اپیلیں زیر التوا تھیں۔
دو رکنی بنچ نے سماعت کی
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت شروع کی تو قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے عدالت کو بتایا کہ ایون فیلڈ فلیٹس نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی ملکیت ہیں اور یہ 1993 میں خریدے گئے اور اس کے بعد فلیٹس کی جائیدادیں خریدی گئیں۔
جسٹس فاروق نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ مریم کا کردار 2006 سے شروع ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب پراسیکیوٹر یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ مریم تمام جائیداد کی بینیفشل اونر تھیں۔ تو کیا اب ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ نواز شریف کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا؟
یہ بھی پڑھیں | اسحاق ڈار سینیٹ میں ن لیگ کے قائد ایوان مقرر
یہ بھی پڑھیں | خاتون جج سے پہلے معافی مانگنے آیا ہوں، عمران خان
نواز شریف کا نام دستاویزات میں کہیں نہیں ہے
جج نے کہا کہ نواز شریف کا نام دستاویزات میں کہیں نہیں ہے۔
جسٹس فاروق نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ پہلے فیصلہ کریں کہ نیب کا موقف کیا ہے اور اگر وہ اس سے متفق ہیں تو انہیں دعووں کی حمایت کے لیے ثبوت فراہم کرنا ہوں گے۔
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ نواز شریف نے یہ جائیدادیں مریم نواز کے ذریعے چھپائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے جائیدادوں کی ملکیت ثابت کر دی ہے۔
اپارٹمنٹس نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے ہیں
جسٹس فاروق نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اپارٹمنٹس نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے ہیں۔ تاہم انہوں نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ وہ ثبوت کے ساتھ جو دلیل دے رہے ہیں وہ ثابت کریں۔
جج نے مزید کہا کہ سوال یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم مواز کے ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کا کیا تعلق ہے؟
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ پاناما گیٹ کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر واجد ضیاء نے خود دستاویزات کا جائزہ لیا اور ان پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔
جس پر جسٹس کیانی نے ریمارکس دیئے کہ تفتیشی افسر کی رائے کو بطور ثبوت نہیں لیا جا سکتا۔