متحدہ عرب امارات (یو اے ای) دنیا کا سب سے زیادہ مستحکم معیشت والا ملک بن گیا ہے۔ یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ کے مطابق، یو اے ای کو معاشی طور پر مستحکم ممالک میں سرفہرست قرار دیا گیا ہے جس کی بنیادی وجوہات میں معاشی تنوع، حکومتی پالیسیز اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری شامل ہیں۔ تیل کی معیشت پر انحصار کم کرتے ہوئے، یو اے ای نے سیاحت، مالیات اور ٹیکنالوجی میں مضبوط پیشرفت کی ہے جس نے اسے عالمی منڈی میں منفرد کر دیا ہے۔
معاشی استحکام کی بنیادی وجوہات
یو اے ای کی اقتصادی ترقی تیل پر انحصار کو کم کرنے اور مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے سے ممکن ہوئی ہے۔ یو اے ای کی حکومت نے ویژن 2030 کے تحت مختلف اقدامات کیے ہیں جن میں ٹیکنالوجی، سیاحت اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے شامل ہیں۔ 2030 تک یو اے ای کا ہدف ہے کہ اس کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کو 3 کھرب درہم (تقریباً 816 ارب ڈالر) تک پہنچایا جائے۔
سال 2022 میں، یو اے ای کی جی ڈی پی 1.86 کھرب درہم تھی جس میں 22 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ عالمی معیار کے بنیادی ڈھانچے جیسے کہ جدید ہوائی اڈے، پورٹ سسٹمز اور تجارتی مراکز نے یو اے ای کو عالمی کاروباری مراکز میں شامل کر دیا ہے۔
اہم معاشی اعداد و شمار
• مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی): تقریباً 504 ارب ڈالر
• فی کس آمدنی: 83903 ڈالر
• سالانہ معیشتی ترقی: 7.9 فیصد
یو اے ای نے ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی جیسے ادارے قائم کیے ہیں جو عالمی اقتصادی اتار چڑھاؤ سے بچاؤ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یو اے ای میں کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے سازگار قوانین بنائے گئے ہیں، جس سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو مزید مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔
عالمی سرمایہ کاری اور مالیاتی پالیسیز
یو اے ای نے اپنی مالیاتی پالیسیز میں استحکام اور احتیاط پر توجہ دی ہے۔ عالمی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے مختلف سہولتیں دی جاتی ہیں، جیسے ٹیکس فری زون اور کم کاروباری اخراجات۔ اس کے علاوہ، عالمی بینک کی ایز آف ڈوئنگ بزنس رینکنگ میں یو اے ای نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کاروباری معاملات کو آسانی سے چلانے کی اہلیت میں یہ ملک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔
سال 2024 میں، یو اے ای کی حکومت نے مختلف شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کے منصوبے شروع کیے ہیں جس میں ماحول دوست توانائی، ڈیجیٹل معیشت اور اسمارٹ سٹیز کی تعمیر شامل ہے۔ اس کے علاوہ، یو اے ای میں مصنوعی ذہانت اور تحقیق و ترقی کے فروغ کے لیے بھی وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں۔