جب دنیا مشرقِ وسطیٰ کے پُرامن اور مستحکم ممالک کا ذکر کرتی ہے تو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا نام سرفہرست ہوتا ہے۔ اس کی ایک بڑی اور منفرد وجہ ہے اس کا طرزِ حکمرانی۔ دنیا کے اکثر ممالک کے برعکس متحدہ عرب امارات سات مختلف حکمران خاندانوں کے ذریعے چلایا جارہا ہے جو الگ الگ ریاستوں کی قیادت کرتے ہیں لیکن ایک جھنڈے تلے متحد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے "متحدہ” عرب امارات کہا جاتا ہے۔
یہ استحکام کسی اتفاق یا قسمت کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منفرد نظام، مشترکہ تاریخ اور دوراندیش قیادت کی بدولت حاصل ہوا ہے
سات حکمران، ایک قوم: متحدہ عرب امارات کا منفرد سیاسی ماڈل
متحدہ عرب امارات کی ساتوں ریاستیں اپنے اپنے بادشاہوں کے ذریعے چلتی ہیں۔ یہ خاندان تاریخی طور پر بنی یاس قبیلے سے جُڑے ہوئے ہیں اور آج بھی باہمی مشاورت سے حکومت چلا رہے ہیں۔
یہ نظام ایک وفاقی ڈھانچے کی شکل میں کام کرتا ہے جس میں تمام حکمران "فیڈرل سپریم کونسل” کے ذریعے اہم قومی فیصلے مشترکہ طور پر کرتے ہیں۔ یہ روایت اور جدیدیت کا ایک منفرد امتزاج ہے بادشاہت اور وفاقی حکومت کا ایسا ملاپ جو دنیا میں کہیں اور نہیں ملتا۔
1971 میں قیام کے بعد سے یو اے ای میں کسی بھی قسم کی فوجی بغاوت، سیاسی انقلاب یا حکومتی تبدیلی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ایک سرکاری سروے کے مطابق 88 فیصد سے زائد افراد اپنی حکومت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ آئی ایم ڈی ورلڈ کمپیٹیٹو نیس رینکنگ کے مطابق متحدہ عرب امارات دنیا کی دس بہترین حکومتوں میں شامل ہے۔
مختلف ریاستیں، مختلف پہچان لیکن ایک مشترکہ وژن
متحدہ عرب امارات کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ سب کچھ ایک ہی جگہ سے نہیں چلایا جاتا۔ ہر ریاست کی اپنی الگ قیادت، منصوبے اور ترجیحات ہیں۔ لیکن ان سب کا مقصد ایک ہی ہے: متحدہ عرب امارات کو ترقی دینا۔ یہی ہم آہنگی اس نظام کو کامیاب بناتی ہے۔
دبئی: جدیدیت، تجارت اور عالمی شناخت ایک نظر میں
دبئی متحدہ عرب امارات کی سب سے متحرک اور بین الاقوامی سطح پر جانی پہچانی ریاست ہے۔ اس کی قیادت شیخ محمد بن راشد المکتوم کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے دبئی کو ایک عالمی تجارتی اور سیاحتی مرکز میں بدل دیا ہے۔ اگرچہ دبئی وفاقی حکومت کی کئی اہم اداروں کی میزبانی کرتا ہے لیکن اس کی انفرادیت اس کے وژن میں ہے ۔
معاشی اعتبار سے دبئی متنوع شعبوں پر مشتمل ہے جن میں تجارت، سیاحت، رئیل اسٹیٹ، مالیاتی خدمات اور لاجسٹکس سرفہرست ہیں۔ جیبَل علی پورٹ، دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور دبئی فنانشل مارکیٹ جیسے اثاثے اسے عالمی تجارتی نیٹ ورک کا لازمی حصہ بناتے ہیں۔ 2024 میں دبئی نے 18.72 ملین بین الاقوامی سیاحوں کی میزبانی کی جب کہ 2025 کی پہلی سہ ماہی میں ہی 5.31 ملین افراد دبئی پہنچے یہ ایک زبردست سیاحتی نمو کا ثبوت ہے۔
ہوابازی کے شعبے میں بھی دبئی دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ (DXB) نے 2024 میں تقریباً 92.3 ملین مسافروں کو ہینڈل کیا جس کی بدولت یہ مسلسل دنیا کا مصروف ترین ہوائی اڈہ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دبئی نے ہوٹلنگ انڈسٹری میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کیں 154,000 سے زائد کمروں پر مشتمل 832 ہوٹلوں میں اوسطاً 78 فیصد تک کمروں کی بُکنگ رہی۔
دبئی کی ڈیجیٹل ترقی بھی قابلِ ستائش ہے۔ 2024 کی عالمی درجہ بندی (IMD) کے مطابق دبئی مشرقِ وسطیٰ میں ڈیجیٹل کمپیٹیٹیو نیس میں پہلے نمبر پر اور دنیا بھر میں 11ویں نمبر پر رہا ہے۔ صفائی اور سیکیورٹی کے اعتبار سے بھی شہر نمایاں ہے Numbeo کی 2025 رپورٹ کے مطابق، دبئی دنیا کے پانچ سب سے محفوظ شہروں میں شامل ہے (سیفٹی انڈیکس: 83.7) اور عالمی سطح پر اسے سب سے صاف شہر قرار دیا گیا ہے۔
ثقافت اور تقریبات کے لحاظ سے دبئی ہر سال ہزاروں افراد کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ GITEX (200,000 شرکاء)، Gulfood، آرٹ ایونٹس، اور Dubai Fitness Challenge 2024 (2.7 ملین شرکاء) جیسے عالمی تقاریب شہر کی متنوع شناخت کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔
دبئی کا مستقبل بھی پرجوش منصوبوں سے بھرا ہوا ہے: 2040 ماسٹر پلان، D33 ایجنڈا، دبئی میٹاورس پالیسی، بلیو لائن میٹرو، اور 260 ملین مسافروں کی گنجائش والا المکتوم ایئرپورٹ منصوبہ یہ سب دبئی کو اگلی دہائیوں کا اسمارٹ شہر بنانے کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
عالمی سطح پر دبئی ایشیا کا سرفہرست ریموٹ ورکنگ شہر مانا جاتا ہے (2024 کی ایگزیکٹیو نومیڈ رپورٹ میں پہلا نمبر) اور 2024 کی پہلی ششماہی میں اسے سب سے زیادہ FDI حاصل کرنے والا سیاحتی مرکز بھی قرار دیا گیا ہے۔

شارجہ: ثقافت، ورثہ اور فطرت سے جُڑی شناخت
شارجہ متحدہ عرب امارات کی وہ ریاست ہے جو اپنی تہذیبی گہرائی، ادبی سرگرمیوں اور ثقافتی ورثے کی بنا پر الگ مقام رکھتی ہے۔ اس کی قیادت شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی کر رہے ہیں جو صرف ایک حکمران نہیں بلکہ ایک مصنف، مورخ اور دانشور بھی ہیں۔ ان کی سرپرستی میں شارجہ نے خود کو مشرقِ وسطیٰ کے ثقافتی دارالحکومت کے طور پر منوایا ہے۔
شارجہ کو 1998 میں یونیسکو کی جانب سے “عرب کلچرل کیپیٹل” اور 2019 میں “ورلڈ بک کیپیٹل” کا اعزاز حاصل ہوا ہے ۔ حالیہ برسوں میں بھی شارجہ ثقافت اور ورثے کو نمایاں کرنے میں پیش پیش ہے جیسے 2024 میں "فایا پلیولینڈ اسکیپ” کو یونیسکو سائٹ میں شامل کیا گیا ہے جو خطے کی قدیم زمینوں اور آثار قدیمہ کی عکاسی کرتا ہے۔
سیاحت کے حوالے سے شارجہ نے 2024 میں 1.6 ملین ہوٹل مہمانوں کو خوش آمدید کہا ہے جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 11 فیصد اضافہ تھا۔ 2025 کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً 486,000 سیاح جس میں روس، بھارت، یورپ اور چین سے آنے والے سیاحوں کی شرح میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خاص طور پر چین سے آنے والے سیاحوں میں 828 فیصد کا زبردست اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ماحولیاتی اور ثقافتی مقامات میں "شارجہ سفاری پارک” (12,000 ہیکٹرز پر مشتمل) اور "ہارٹ آف شارجہ” کی بحالی جیسے بڑے منصوبے شامل ہیں۔ "شارجہ لائٹ فیسٹیول” بھی ہر سال 13 سے زائد مشہور عمارات پر روشنیوں کے شاندار مظاہرے کے ذریعے ہزاروں افراد کو متوجہ کرتا ہے۔
ادبی میدان میں شارجہ ایک روشن ستارہ ہے۔ شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر دنیا کے بڑے کتاب میلوں میں شمار ہوتا ہے جہاں 75 سے زائد ممالک سے 470 پبلشرز شرکت کرتے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی اور خرچ کرنے کی شرح یہاں خاصی بلند رہی ہے جسے شارجہ بک اتھارٹی بھرپور طریقے سے سپورٹ کرتی ہے۔
انفراسٹرکچر کے اعتبار سے شارجہ میں 100 سے زائد ہوٹلز ہیں جن میں تقریباً 10,000 کمرے موجود ہیں۔ ساتھ ہی ایکو ٹورزم کو فروغ دینے کے لیے "ال ہیرا بیچ”، "واسط ویٹ لینڈ سینکچری”، اور "ال نور آئی لینڈ” جیسے پراجیکٹس کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
شارجہ کی معیشت میں سیاحت کا حصہ تقریباً AED 2.5 ارب ہے جو کہ مجموعی جی ڈی پی کا 10 فیصد بنتا ہے۔ "Visit Sharjah” جیسے جدید پروموشن کیمپینز ریاست کی پہچان کو "ثقافت + مہم جوئی + فطرت” کے منفرد امتزاج کے طور پر دنیا کے سامنے لا رہی ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر فایا پلیولینڈ سائٹ کے ساتھ شارجہ اب یو اے ای کی دوسری یونیسکو سائٹ رکھنے والی ریاست ہے جو اس کی علمی اور ماحولیاتی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔

راس الخیمہ: قدرت، سیاحت اور پائیدار ترقی کی جانب بڑھتا ہوا قدم
راس الخیمہ متحدہ عرب امارات کی ایک ایسی ریاست ہے جو فطرتی مناظر، تاریخی ورثے، اور تیزی سے ترقی کرتی معیشت کا امتزاج پیش کرتی ہے۔ اس کی قیادت شیخ سعود بن صقر القاسمی کے ہاتھ میں ہے جو جدیدیت اور فطرت کے درمیان توازن کو فروغ دیتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں راس الخیمہ نے اپنی انفرادیت کو سیاحت، ماحول دوستی اور کاروباری مواقع کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔
2024 میں راس الخیمہ نے 1.28 ملین بین الاقوامی سیاحوں کی میزبانی کی ہے جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ MICE (Meetings, Incentives, Conferences & Exhibitions) سیاحت میں بھی 15 فیصد اضافہ ہوا۔ راس الخیمہ خطے کا پہلا مقام ہے جسے EarthCheck کی جانب سے "Sustainable Destinations Silver Certification” حاصل ہوئی — یہ اس کی پائیدار ترقی کی پالیسیوں کا عملی ثبوت ہے۔ ریاست نے 2030 تک 3.5 ملین سیاحوں کو متوجہ کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔
کاروبار اور سرمایہ کاری کے میدان میں Ras Al Khaimah Economic Zone (RAKEZ) ایک اہم مرکز ہے۔ 2024 میں یہاں 13,141 نئی کمپنیاں رجسٹر ہوئیں جو ریاست کے کاروبار دوست ماحول کی علامت ہے۔ ہوابازی اور رسائی کے حوالے سے 2024 میں ماسکو، طشقند، وارسا، جدہ، اور حیدرآباد جیسے شہروں سے براہِ راست پروازیں شروع ہوئیں جس سے راس الخیمہ کی بین الاقوامی روابط میں مزید بہتری آئی ہے۔
مہمان نوازی کے شعبے میں بھی نمایاں ترقی دیکھی گئی۔ نئے ریزورٹس جیسے سوفیٹل الحمرا بیچ ریزورٹ اور اننتارا مینا العرب نے اپنی پہلی “اوور واٹر ولاز” لانچ کیں جبکہ مرجان جزیرہ پر کئی عالمی برانڈز 2024–2025 کے دوران اپنی موجودگی بڑھا رہے ہیں۔ یہاں ہونے والے بڑے ایونٹس جیسے RAK ہاف میراتھن، عرب ایوی ایشن سمٹ، اور گلوبل سٹیزن فورم نے ریاست کو MICE اور فیسٹیول سیاحت کا ایک ابھرتا ہوا مرکز بنا دیا ہے۔
2024 کے اختتام پر راس الخیمہ نے فوربس مڈل ایسٹ کی جانب سے "Middle East’s Most Sustainable Project” کا اعزاز حاصل کیا جس کے تحت Responsible RAK جیسے اقدامات نے EarthCheck کی جانب سے سرٹیفیکیشن بھی حاصل کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیو ایئر نائٹ پر شاندار ڈرون شو نے نیا گنیز ورلڈ ریکارڈ بھی قائم کیا ہے۔
غیر ملکی افراد کے لیے رہائش اور کام کے لحاظ سے راس الخیمہ کو دنیا کے دس بہترین شہروں میں شمار کیا گیا ہے (InterNations City Ranking 2024) — اس کی وجہ کم خرچ، بہتر معیارِ زندگی اور خوبصورت قدرتی مناظر ہیں۔
مستقبل کے لحاظ سے ریاست میں "Wynn Al Marjan Island Resort” جیسا میگا پروجیکٹ زیر تعمیر ہے جو 2027 تک مکمل ہوگا۔ اس کے علاوہ AI بیسڈ ٹریفک سسٹمز اور اسمارٹ سٹی کنیکٹیویٹی کے منصوبے بھی ترقی کے نئے دروازے کھول رہے ہیں۔

فجیرہ: قدرتی حسن، ماحولیاتی ورثہ اور صنعتی ترقی کا امتزاج
فجیرہ، متحدہ عرب امارات کی واحد ایسی ریاست ہے جو مکمل طور پر خلیجِ عمان کے ساحل پر واقع ہے۔ اس کی جغرافیائی اہمیت اور قدرتی خوبصورتی اسے باقی تمام ریاستوں سے ممتاز بناتی ہے۔ اس کی قیادت شیخ حمد بن محمد الشرقی کے ہاتھ میں ہےجنہوں نے فجیرہ کو پائیدار سیاحت، صنعت اور ماحولیاتی تحفظ کا متوازن مرکز بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
2024 میں تقریباً 784,000 سیاحوں نے فجیرہ کا رخ کیا ہے۔ جبکہ 2022 میں یہ تعداد 733,000 تھی جو کہ واضح ترقی کی علامت ہے۔ 2024 کی پہلی سہ ماہی میں ہی 349,000 مہمانوں کی آمد ہوئی ہے۔ جو سیاحتی رفتار میں تسلسل کو ظاہر کرتی ہے۔ فجیرہ اب صرف ایک قدرتی مقام نہیں رہا ہے۔ بلکہ ایک ابھرتا ہوا سیاحتی برانڈ بن چکا ہے خاص طور پر ان افراد کے لیے جو سکون، فطرت اور مقامی ثقافت کو ترجیح دیتے ہیں۔
فجیرہ کی سب سے بڑی خوبصورتی اس کے قدرتی مقامات ہیں۔ وادی وریاہ (Wadi Wurayah) جیسا علاقہ 12,700 ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے جسے ریمسار کنونشن کے تحت محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں عربی تحر، نایاب پرندے اور متنوع حیاتیات پائے جاتے ہیں۔ سنوپی آئی لینڈ، اپنی صاف پانی، مرجانوں اور ڈائیونگ سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا بھر کے غوطہ خوروں کے لیے کشش رکھتی ہے۔
ثقافتی اور تاریخی ورثے کے تحفظ کے لیے فجیرہ حکومت نے ایک ہدف رکھا ہے کہ 2024 تک 500,000 افراد فجیرہ کے آثارِ قدیمہ کے مقامات کا دورہ کریں۔ 2022 میں 113,000 افراد نے ان مقامات کی سیر کی ہے۔ اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی سیاحتی ادارے (UNWTO) کی 2024 رپورٹ کے مطابق فجیرہ کو پائیدار سیاحت کے لیے یونیسکو کی پہچان ملی جو اس کی عالمی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
معاشی میدان میں فجیرہ کی جی ڈی پی کا 22 فیصد حصہ صنعت سے حاصل ہوتا ہے جو ریاست کے ترقی پذیر صنعتی کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں تقریباً 22,000 کاروباری لائسنس جاری ہو چکے ہیں اور 2024 میں تجارتی درآمدات AED 2 ارب سے تجاوز کر گئیں۔ فجیرہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 2024 میں 22 فیصد پروازوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جبکہ 2025 میں ممبئی سے نئی پروازوں کا آغاز ہوا ہے (IndiGo کی نئی سروس)۔
ریاست کے مستقبل کی منصوبہ بندی "فجیرہ پلان 2040” کے تحت ہو رہی ہے جس کا مقصد آبادی کو موجودہ ~300,000 سے بڑھا کر 2040 تک 500,000 تک لے جانا ہے۔ انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور ہاؤسنگ میں سرمایہ کاری اسی منصوبے کا حصہ ہے۔
کاروبار کے فروغ کے لیے "فجیرہ کریئیٹو سٹی” ایک اہم فری زون ہے جہاں 2,000 سے زائد میڈیا، ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ، دسمبر 2024 میں EDB (Emirates Development Bank) نے “EDB Connect Fujairah” کا آغاز کیا ہے۔ تاکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو مینوفیکچرنگ، فوڈ سیکیورٹی، صحت، اور قابلِ تجدید توانائی جیسے شعبوں میں معاونت دی جا سکے۔
زندگی کے معیار کے لحاظ سے فجیرہ ایک خاندانی ماحول، سستا کرایہ، مقامی کھانے، اور سست رفتار زندگی پیش کرتا ہے۔ یہ سب خصوصیات اسے ان افراد کے لیے مثالی جگہ بناتی ہیں جو فطرت کے قریب، پرسکون اور متوازن طرزِ زندگی کی تلاش میں ہیں۔

عجمان: چھوٹی مگر مستحکم ریاست، صنعت، تعمیرات اور متوازن طرزِ زندگی کا گہوارہ
عجمان متحدہ عرب امارات کی سب سے چھوٹی ریاست ہے لیکن اس کی معاشی، صنعتی اور رہائشی حیثیت کسی بھی بڑی ریاست سے کم نہیں ہے۔ اس کی قیادت شیخ حمید بن راشد النعیمی کر رہے ہیں جن کی زیرِ نگرانی عجمان نے حالیہ برسوں میں غیر معمولی ترقی دیکھی ہے ۔
2024 میں عجمان ڈیپارٹمنٹ آف اکنامک ڈویلپمنٹ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ریاست میں 63,000 سے زائد فعال کاروباری لائسنس جاری ہو چکے تھے۔ یہ اعداد و شمار اس چھوٹی ریاست کی کاروبار دوست پالیسیوں کا ثبوت ہیں جو خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے سازگار ہیں۔
عجمان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ صنعت سے جڑا ہوا ہے ریاست کی جی ڈی پی کا 34 فیصد صنعتی شعبے سے آتا ہے جو کہ چھوٹی ریاستوں میں سب سے زیادہ شمار ہوتا ہے۔ یہاں خاص طور پر کپڑے، فرنیچر، اور پیپر پروڈکٹس کی صنعتیں نمایاں ہیں جو نہ صرف مقامی مارکیٹ بلکہ برآمدات میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
عجمان فری زون میں 9,000 سے زائد کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں اور یہ علاقہ ڈیجیٹل انکارپوریشن، سستی لائسنسنگ اور آسان کاروباری ماحول کی وجہ سے خاص طور پر جنوبی ایشیائی تاجروں میں مقبول ہے۔ یہاں کاروبار شروع کرنا آسان ہے اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے تمام سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
عجمان پورٹ اور احمد بن راشد پورٹ ریاست کے بحری تجارتی نیٹ ورک کو فعال رکھتے ہیں یہ بندرگاہیں ماہی گیری، مقامی شپنگ اور خلیجی منڈیوں کے ساتھ رابطے کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔
سیاحت کے میدان میں عجمان نے سادہ مگر مؤثر انداز اپنایا ہے۔ یہاں ساحلی ریزورٹس، کورنیش اور آرام دہ طرزِ زندگی سیاحوں اور رہائشیوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ 2024 کی پہلی سہ ماہی میں عجمان کو متحدہ عرب امارات میں "بہترین اپارٹمنٹ رینٹل ریٹرن” رکھنے والی ریاست قرار دیا گیا جو اس کی رہائشی سرمایہ کاری کی کشش کو ظاہر کرتا ہے۔
ڈیجیٹل ترقی کی بات کریں تو، "Ajman Pay” جیسا حکومتی سمارٹ سسٹم 2024 میں 8.1 ملین سے زائد ٹرانزیکشنز مکمل کر چکا تھا جو کہ ریاست کی ای گورننس اور ڈیجیٹل شمولیت کی کامیابی کا مظہر ہے۔
تعلیم اور ثقافت کے شعبے میں، عجمان یونیورسٹی اور عجمان میوزیم نمایاں ادارے ہیں۔ ان اداروں نے نہ صرف مقامی طلبہ کو عالمی معیار کی تعلیم فراہم کی ہے بلکہ ثقافتی ورثے کو بھی اجاگر کیا ہے۔ "عجمان وژن 2025” کے تحت ریاست مستقبل میں تعلیم، معیشت، اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں مزید ترقی کے لیے پرعزم ہے۔

ام القوین: فطرت، زرعی جدت اور سمندری معیشت کا پُرسکون امتزاج
ام القوین متحدہ عرب امارات کی سب سے کم آبادی والی ریاست ہے لیکن اپنی قدرتی خوبصورتی، ماحول دوست حکمتِ عملیوں اور منفرد زرعی منصوبوں کی وجہ سے یہ ریاست پائیدار ترقی کی ایک خاموش مگر پُراثر مثال بن کر ابھری ہے۔ شیخ سعود بن راشد المعلا اس ریاست کے حکمران ہیں، اور وہ نہ صرف وفاقی سپریم کونسل کے رکن ہیں بلکہ ایک وژنری رہنما بھی ہیں جو ریاست کو ماحولیاتی ہم آہنگی اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن رکھے ہوئے ہیں۔
ام القوین کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا قدرتی ساحلی علاقہ ہے جس میں مچھیروں کے دیہات، مانگرو جنگلات، اور آبی پرندوں سے بھرپور "خور البیدہ” جیسے قدرتی ذخائر شامل ہیں۔ ساتھ ہی "ال سینیہ آئی لینڈ” جیسے مقامات ریاست کو ماحولیاتی سیاحت کا منفرد مرکز بناتے ہیں، جہاں سیاح سکون اور فطرت کا قرب محسوس کرتے ہیں۔
2024 میں ام القوین فری ٹریڈ زون (UAQ FTZ) نے 22 فیصد ترقی دیکھی یہ زون چھوٹے کاروباروں، اسٹارٹ اپس، اور فری لانسرز کے لیے خاص طور پر پرکشش ہے کیونکہ یہاں رجسٹریشن سادہ، لائسنس سستے اور بیوروکریسی کم ہے۔ ریاست کی کاروباری پالیسیوں نے غیر ملکی سرمایہ کاروں، خاص طور پر انٹرنیٹ، ٹریڈ، اور فوڈ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے تاجروں کو متوجہ کیا ہے۔
ام القوین کی ایک اور اہم شناخت اس کی زرعی اختراعات ہیں۔ ریاست کے محکمہ زراعت نے 2024 میں ورٹیکل فارمنگ کے پائلٹ منصوبے شروع کیے ہیں جن کا مقصد خوراک کی سیکیورٹی، پانی کے استعمال میں بچت اور مقامی پیداوار کو بڑھانا ہے۔ یہ منصوبے "یو اے ای 2031 پائیداری ایجنڈا” کا حصہ ہیں اور ملکی سطح پر پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔
ریاست میں واقع بندرگاہیں "ام القوین پورٹ” اور "احمد بن راشد پورٹ” مقامی ماہی گیری، خلیجی تجارت، اور چھوٹی جہازرانی کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ حالیہ منصوبوں کے مطابق ان بندرگاہوں کو وسعت دی جا رہی ہے تاکہ اُن کی صلاحیت اور جدیدیت کو عالمی معیار پر لایا جا سکے۔
زندگی کے معیار کے لحاظ سے ام القوین متحدہ عرب امارات کی سب سے سستی ریاست سمجھی جاتی ہے جہاں زمین، رہائش اور کاروباری جگہوں کی قیمتیں نسبتاً کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نوجوان خاندان، فری لانسرز، اور ریٹائرڈ افراد بڑی تعداد میں سکونت اختیار کر رہے ہیں۔ 2024 کی بایوت رپورٹ کے مطاب ام القوین انویسٹمنٹ ریٹرن، قیمت، اور لائف اسٹائل کے لحاظ سے ایک اعلیٰ انتخاب بن چکا ہے۔
ریاست تعلیم اور ہنرمند افرادی قوت کے فروغ پر بھی خاص توجہ دے رہی ہے۔ 2024 میں متحدہ عرب امارات کی اسکلڈ ورک فورس اسٹریٹیجی کے تحت ام القوین میں نئے ٹیکنیکل اور ووکیشنل تربیتی مراکز کھولے گئے خصوصاً سمندری سائنس اور فوڈ پروسیسنگ کے شعبوں میں۔ یہ اقدامات مقامی نوجوانوں کو بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ثقافت کے میدان میں ام القوین میوزیم جو ایک 18ویں صدی کا قلعہ تھا ریاست کی تاریخ، روایتی کشتی سازی (دھو سازی) اور خاندانی ورثے کو محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ یہاں کا ثقافتی ماحول روایتی عرب طرزِ زندگی کی ایک جھلک فراہم کرتا ہے جو آج کی تیز رفتار دنیا میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔

جب دنیا سیاسی عدم استحکام، تفرقہ بازی اور غیر یقینی حالات کا سامنا کر رہی ہے تب متحدہ عرب امارات ایک ایسا ملک ہے جو سات الگ الگ حکمرانی رکھنے والی ریاستوں کے باوجود ایک مضبوط اور متفقہ شناخت کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ صرف ایک سیاسی کامیابی نہیں بلکہ روایتی قیادت اور جدید وژن کے امتزاج کا زندہ ثبوت ہے۔
ہر ریاست چاہے وہ ابوظہبی کی معیشت ہو، دبئی کی جدت، شارجہ کی ثقافت، راس الخیمہ کی قدرت، فجیرہ کا ماحولیاتی توازن، عجمان کی صنعتی ترقی یا ام القوین کا قدرتی سکون سب اپنی اپنی جگہ پر خاص ہیں مگر متحدہ عرب امارات کے جھنڈے تلے ایک مقصد اور ایک وژن کے لیے کام کر رہی ہیں۔
یہ ماڈل نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر ایک مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ روایت اور جدیدیت کو کیسے ایک ساتھ لے کر چلا جا سکتا ہے، بغیر تصادم، بغیر انقلاب اور بغیر خلفشار کے۔
یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر سے سرمایہ کار، سیاح، طلبہ اور مہاجرین متحدہ عرب امارات کا رخ کرتے ہیں کیونکہ یہاں انہیں صرف ترقی ہی نہیں، بلکہ سکون، تحفظ، اور اعتماد کا ماحول بھی ملتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: متحدہ عرب امارات کا ورک پرمٹ کیسے حاصل کریں؟