مبارک ثانی کیس حالیہ دنوں میں پاکستان کے عدالتی اور مذہبی حلقوں میں شدید بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس کیس کی ابتداء دسمبر 2022 میں ہوئی جب مبارک احمد سانی کے خلاف قرآن پاک کی مبینہ طور پر غیر قانونی طباعت اور ایک متنازعہ کتاب "تفسیر صغیر” کی تقسیم کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
مبارک ثانی کیس کی قانونی اور آئینی نوعیت
مبارک ثانی پر لگائے گئے الزامات کو پنجاب قرآن پاک (طباعت اور ریکارڈنگ) (ترمیمی) ایکٹ 2021 کے تحت دیکھا گیا لیکن اہم بات یہ تھی کہ یہ قانون ان کے اس جرم کے بعد بنا تھا۔ اس تناظر میں قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ انہیں ایک ایسے قانون کے تحت سزا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اس وقت موجود نہیں تھا۔ لیکن مذہبی حلقوں کا کہنا تھا کہ یہ قانون نا بھی ہو تو قادنیانیوں کو اپنا لٹریچر شائع کرنے اور تبلیغ کی قانونا اجازت نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کا مبارک ثانی کیس پر متنازعہ فیصلہ
سپریم کورٹ نے فروری 2024 میں یہ فیصلہ سنایا کہ مبارک ثانی پہلے ہی چھ ماہ قید کی سزا بھگت چکے ہیں جو کہ ان کے جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا ہے، لہذا انہیں مزید قید میں رکھنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس فیصلے میں کچھ پیراگراف شامل تھے جن میں قادیانیوں کو تبلیغ کی آزادی کے حوالے سے غیر شرعی باتیں کی گئی تھیں۔
عدالت نے کہا کہ مذہبی آزادی کے حقوق کو قانون، اخلاقیات، اور عوامی نظم کے دائرے میں ہی محدود رکھا جانا چاہیے۔ لیکن اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ کسی بھی فرد کے مذہبی حقوق کو غیر آئینی طور پر محدود نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ کا اپنے متنازعہ پیراگراف کو حذف کرنے کا حکم
مذہبی تنظیمات اور علمائے کرام کی جانب سے شدید رد عمل اور تحفظات کے بعد جولائی 2024 میں، سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی نظرثانی درخواست پر غور کرتے ہوئے اس فیصلے کے متنازعہ پیراگراف کو حذف کرنے کا حکم دیا۔ ان پیراگراف میں قادیانیوں کو تبلیغ کی آزادی اور اسلامی اصولوں کے حوالے سے کچھ ایسے نکات شامل تھے جنہیں مذہبی حلقوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن نے بھی ان پیراگراف کو غیر آئینی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیا تھا۔
مبارک ثانی کیس کے حوالے سے اہم نکات
مذہبی حساسیت
اس کیس نے پاکستانی معاشرے میں مذہبی حساسیت کے حوالے سے ایک نیا باب کھولا ہے۔ کئی اسلامی علما اور مذہبی جماعتوں نے اس فیصلے کے کچھ حصوں پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
قانونی چیلنجز
یہ کیس پاکستانی عدلیہ کے لیے ایک اہم چیلنج بن گیا، جہاں آئینی اور مذہبی قوانین کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل ثابت ہوا۔
غلط فہمی یا غیر ضروری تشریح؟
کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کیس میں کچھ نکات کو غیر ضروری طور پر شامل کیا، جن کی وضاحت یا قانونی بنیاد نہیں تھی۔ اسی وجہ سے یہ معاملہ متنازعہ بن گیا۔
مبارک ثانی کیس: ایک غلط فیصلہ؟
بعض قانونی ماہرین اور مذہبی حلقوں کا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ نے مبارک سانی کیس کو غلط انداز میں لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت کو اس معاملے کو زیادہ احتیاط سے دیکھنا چاہیے تھا اور مذہبی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔
خاص طور پر، اسلامی نظریاتی کونسل نے اس فیصلے کے بعد اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ عدالت کو اسلامی اصولوں کے خلاف کوئی بھی فیصلہ سنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کیس کے ذریعے عدلیہ نے غیر ضروری طور پر ایک ایسے مسئلے میں دخل دیا جو صرف مذہبی اور آئینی ماہرین کی صوابدید پر چھوڑا جانا چاہیے تھا۔