لاہور، پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا شہر اور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت ہے، جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ یہ شہر اپنی قدیم تاریخ، ثقافتی ورثے، اور اہم تاریخی مقامات کے لئے مشہور ہے۔ آئیے لاہور کی تاریخ سے متعلق جانتے ہیں اور اس کے مختلف ادوار سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔
لاہور کی قدیم دور
لاہور کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس کا ذکر مختلف تاریخی کتب میں ملتا ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق، لاہور کی بنیاد رام چندر جی کے بیٹے لو نے رکھی تھی اور اسے ‘لوہ ور’ کہا جاتا تھا۔
لاہور کا اسلامی دور
711 عیسوی میں محمد بن قاسم کی سندھ پر فتح کے بعد اسلامی دور کا آغاز ہوا۔ اس دور میں لاہور ایک اہم مرکز بن گیا۔ 11ویں صدی میں محمود غزنوی نے لاہور پر حملہ کیا اور اسے غزنوی سلطنت کا حصہ بنا دیا۔ بعد ازاں، غوری خاندان کے دور میں لاہور کی اہمیت میں اضافہ ہوا اور اسے ان کا دارالحکومت بھی بنایا گیا۔
لاہور کا مغل دور
مغل بادشاہ اکبر نے لاہور کو اپنا دارالحکومت بنایا اور یہاں بہت سی عظیم الشان عمارتیں تعمیر کیں، جیسے شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، اور شالامار باغ۔ مغل دور میں لاہور ایک عظیم ثقافتی اور تعلیمی مرکز بن گیا۔
لاہور کا سکھ دور
1799 میں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کر لیا اور اسے اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنایا۔ سکھ دور میں لاہور میں کئی اہم عمارتیں اور گوردوارے تعمیر کیے گئے۔
لاہور کا برطانوی دور
1849 میں برطانوی حکومت نے پنجاب پر قبضہ کر لیا اور لاہور کو پنجاب کا دارالحکومت بنا دیا۔ برطانوی دور میں لاہور میں بہت سے تعلیمی ادارے، ہسپتال، اور دیگر بنیادی ڈھانچے تعمیر کیے گئے۔ 1947 میں برطانوی حکومت کے خاتمے اور پاکستان کے قیام کے بعد، لاہور پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دارالحکومت بنا۔
لاہور کا جدید دور
آج کا لاہور پاکستان کا ایک اہم تجارتی، صنعتی، اور تعلیمی مرکز ہے۔ یہاں کے مشہور تعلیمی ادارے، جیسے پنجاب یونیورسٹی، لمز، اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، طلباء کو اعلیٰ تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ لاہور کا جدید انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ سسٹم، اور ترقیاتی منصوبے اسے پاکستان کے اہم ترین شہروں میں شامل کرتے ہیں۔ لاہور مختلف سیاسی و مذہبی شخصیات کا مرکز ہے۔ سیاسی طور پر ن لیگ اور تحریک لبیک پاکستان کے مراکز اسی شہر لاہور میں ہیں۔ مذہبی اعتبار سے بھی یہاں قدیم جامعہ نظامیہ رضویہ ہے جہاں سے بڑے مشائخ و علماء نے تعلیم حاصل کی ہے۔ تحریک لبیک کے مرحوم بانی علامہ خادم حسین رضوی نے بھی اسی جامعہ سے تعلیم حاصل کی۔
لاہور کا ثقافتی ورثہ
لاہور کا ثقافتی ورثہ بھی بہت مالا مال ہے۔ یہاں کی صوفیانہ روایات، مذہبی مزارات، اور قدیم عمارات اس کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔ حضرت داتا صاحب علی ہجویری علیہ الرحمتہ کے مزار پر ہر سال ہزاروں زائرین حاضری دیتے ہیں اور اس شہر کی روحانی فضا کا لطف اٹھاتے ہیں۔