پاکستان کی قومی اسمبلی میں حال ہی میں ایک نیا بل پیش کیا گیا ہے جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں (LEAs) کو خصوصی اختیارات دیے جائیں گے تاکہ دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائیوں کے لیے مشتبہ افراد کو تین ماہ تک حراست میں رکھا جا سکے۔
اس بل میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (ATA) 1997 کے سیکشن 11EEEE میں کی گئی سابقہ ترمیم کو دوبارہ نافذ کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس میں LEAs کو مشتبہ افراد کو بغیر ایف آئی آر یا عدالت کے حکم کے حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل تھا۔
حکومت کے مطابق، یہ بل خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی روک تھام کے لیے ضروری ہے۔ اگست میں بلوچستان میں متعدد حملے ہوئے جن میں درجنوں افراد جان سے گئے، جس کے بعد وفاقی حکومت نے LEAs کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ کیا۔
یہ بل، جو دو سال کے لیے نافذ کیا جائے گا، LEAs کو اختیار دے گا کہ وہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے مشتبہ افراد کو ابتدائی طور پر تین ماہ کے لیے حراست میں رکھ سکیں تاکہ ان کے خلاف تحقیقات مکمل کی جا سکیں۔
مزید یہ کہ مشتبہ افراد کی حراست اور تحقیقات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تعاون سے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (JIT) تشکیل دی جائے گی۔
بل کے حق میں دیے گئے دلائل کے مطابق، موجودہ قانون سازی میں اس قسم کے اقدامات کے لیے جگہ نہیں ہے جس سے LEAs کی کارروائیوں میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس بل کا مقصد دہشت گردی کی روک تھام اور قومی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔