اسرائیل اور حماس کی غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی امیدیں مدہم پڑ گئی ہیں۔
یاد رہے کہ غزہ میں جاری جنگ ساتویں مہینے بھی جاری ہے۔ اسرائیل پر جنگ بندی پر رضامندی کے لیے امریکہ سمیت دیگر ممالک کی طرف سے بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اسرائیل "فتح سے ایک قدم دور ہے” اور اس نے غزہ کے دور دراز جنوبی شہر رفح میں حماس کے بقیہ جنگجوؤں کو شکست دینے کا عزم کیا ہے۔ تاہم، اسی دن، فوج نے بھی اعلان کیا کہ اس نے اپنی افواج کو جنوبی غزہ سے نکال لیا ہے۔
فوجی کمانڈروں نے کہا ہے کہ انخلاء حکمت عملی پر مبنی ہے تاہم اس سے جنگ کے خاتمے کا اشارہ نہیں ملتا۔
رفح آپریشنز
اسرائیلی رہنما کے بیان کے مطابق غزہ کے جنوبی شہر رفح میں فوجی آپریشن کیا نا سکتا ہے جہاں چھ ماہ کی لڑائی کے بعد فلسطینی علاقے کی زیادہ تر آبادی نقل مکانی کر چکی ہے۔
وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ فوجی دستے بشمول رفح مستقبل کے مشنوں کے لیے تیاری کریں گے۔ رفح میں تقریباً 1.5 ملین غزہ کے باشندے پرہجوم پناہ گاہوں اور خیموں میں رہتے ہیں۔
امریکہ نے کہا ہے کہ وہ رفح پر اسرائیلی حملے کی مخالفت کرتا ہے جب کہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حملے کی تاریخ مقرر کر دی گئی ہے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے نیتن یاہو کے ریمارکس کے بارے میں پوچھے جانے پر صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے اسرائیل پر واضح کر دیا ہے کہ ہمارے خیال میں رفح پر مکمل فوجی حملے سے شہریوں پر بہت برا،اثر پڑے گا اور اس سے بالآخر اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچے گا۔