علامہ خادم حسین رضوی پاکستان کی مذہبی سیاست میں ایک ممتاز شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی چوتھی برسی کے موقع پر، لاہور میں ہزاروں افراد چوک یتیم خانہ جمع ہیں جہاں عظیم الشان اجتماع ہو رہا ہے۔ یہ تقریب 19 سے 21 نومبر تک جاری رہیں گی۔ مرکزی تقریب آج منعقد ہو رہی ہے جس سے ان کے بیٹے اور موجودہ امیر سعد رضوی خطاب کریں گے۔
علامہ خادم رضوی کی ابتدائی زندگی اور دینی تعلیم
22 جون 1966 کو ضلع اٹک کے ایک چھوٹے سے گاؤں نکہ کلاں میں پیدا ہونے والے خادم حسین رضوی کو بچپن سے ہی دینی تعلیم کی طرف رغبت تھی۔ انہوں نے لاہور کے معروف مدرسے جامعہ نظامیہ رضویہ سے درسِ نظامی مکمل کیا۔ ان کی عربی اور حدیث میں مہارت کے سبب وہ دینی حلقوں میں جلد ہی نمایاں ہو گئے۔ ایک حادثے کے نتیجے میں معذور ہونے کے باوجود، ان کی جدوجہد اور عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔
علامہ رضوی کی سیاسی جدوجہد اور تحریک لبیک پاکستان کی بنیاد
سال 2015 میں خادم حسین رضوی نے تحریک لبیک پاکستان (TLP) کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کا بنیادی مقصد ختمِ نبوت کے تحفظ اور توہینِ رسالت کے خلاف قوانین کا دفاع تھا۔ ان کی قیادت میں تحریک نے متعدد مظاہرے اور دھرنے دئیے جن میں 2017 کا فیض آباد دھرنا سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ یہ دھرنا توہینِ رسالت کے قوانین میں مبینہ تبدیلی کے خلاف تھا جس نے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
ٹی ایل پی کی قیادت میں انہوں نے 2018 کے انتخابات میں بھی حصہ لیا جس میں جماعت نے 22 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ یہ کامیابی پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ایک بڑی پیش رفت تھی۔
علامہ خادم رضوی کی چوتھی برسی کی تقریبات
19 نومبر 2020 کو علامہ خادم حسین رضوی بخار کے باعث لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کی نماز جنازہ مینارِ پاکستان کے گراؤنڈ میں ادا کی گئی جہاں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
ان کی چوتھی برسی کے موقع پر، لاہور میں مختلف مقامات پر تقریبات کا انعقاد ہوا جن میں ان کے پیروکاروں نے ان کی یاد میں قرآن خوانی، نعت خوانی، اور اجتماعی دعاؤں کا اہتمام کیا۔ 19 سے 21 نومبر تک جاری رہنے والے ان پروگرامز میں تحریک لبیک کے موجودہ قائدین نے بھی شرکت کی اور علامہ خادم حسین رضوی کی خدمات کا ذکر کیا۔ مقررین نے ان کے نظریات اور جدوجہد کو تحریک کے لیے مشعلِ راہ قرار دیا۔
علامہ خادم حسین رضوی کی شخصیت نے دینی حلقوں میں ایک نئی تحریک کو جنم دیا۔ ان کی بے باک خطابت، نظریاتی عزم، اور سیاسی جرات نے لاکھوں لوگوں کو ان کا حامی بنایا۔ ان کی جدوجہد نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں ختمِ نبوت اور توہینِ رسالت جیسے مسائل پر شعور اجاگر کیا۔