علامہ محمد اقبال
علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء (بمطابق 3 ذوالقعدہ 1294ھ) کو متحدہ ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی اقبال کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیت تھے۔ ان کی وجۂ شہرت اردو اور فارسی میں شاعری ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ The Reconstruction of Religious Thought in Islam کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی لکھی۔ علامہ اقبال کو دورِ جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
اقبال کے والد شیخ نور محمد، کشمیر کے برہمنوں کی نسل سے تھے۔ غازی اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک بزرگ نے اسلام قبول کیا۔ اقبال کےآباء و اجداد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔ ہر پشت میں ایک نہ ایک ایسا ضُرور ہوا جس نے فقط دل سے راہ رکھی۔ یہ بھی انہی میں سے تھے۔ بزرگوں نے کشمیر چھوڑا تو سیالکوٹ میں آ بسے۔ شیخ نور محمد کے والد شیخ محمد رفیق نے محلہ کھٹیکاں میں ایک مکان آباد کیا۔ کشمیری لوئیوں اور دُھسّوں کی فروخت کا کاروبار شروع کیا۔ اقبال کے والد اور اقبال کے والد کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد یہیں پیدا ہوئے، پلے بڑھے۔ بعد میں سہج رام سپرو بازار چوڑیگراں میں اُٹھ آئے جو اب اقبال بازار کہلاتا ہے۔ ایک چھوٹا سا مکان لے کر اس میں رہنے لگے اور مرتے دم تک یہیں رہے۔ اقبال کے دادا سہج رام سپرو کی وفات کے بعد شیخ نُور محمد نے اس سے ملحق ایک دو منزلہ مکان اور دو دکانیں خرید کر مکانیت کو بڑھا لیا۔
شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے۔ سیالکوٹ کے اکثر مقامی علما کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ اقبال بسم ﷲ کی عمر کو پہنچے تو انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے۔ حسبِ دستور قرآن شریف سے ابتدا ہوئی۔ تقریباً سال بھر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ شہر کے ایک نامور عالم مولانا سید میر حسن اقبال کے والد کو زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو۔ اس کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے، تو اقبال کو میر حسن کے سپرد کر دیا۔ ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں تھا۔ یہاں اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا۔ تین سال گزر گئے۔ اس دوران میں سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا۔ اقبال بھی وہیں داخل ہو گئے مگر پرانے معمولات اپنی جگہ رہے۔ میر حسن استاد کے ساتھ اقبال کے مرشد بھی تھے۔
سید میر حسن سر سید کے بڑے قائل تھے۔ ان کے زیر اثر اقبال کے دل میں بھی سرسید کی محبت پیدا ہو گئی جو بعض اختلافات کے باوجود آخر دم تک قائم رہی۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو خیر اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی۔ قدرت نے انھیں صوفی باپ اور عالم استاد عطا کیا جس سے ان کا دل اور عقل یکسو ہو گئے، دونوں کا ہدف ایک ہو گیا۔ شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی، کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کر لیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد شعر گوئی فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی گئی تو داغ کو شاگردی کی درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔
6 مئی 1893ء میں اقبال نے میٹرک کیا اور 1895ء میں اقبال نے ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور آ گئے۔ 1898ء میں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ کا تعلق میسّر آیا۔ جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کر دیا۔ ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال 13 مئی 1899ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہو گئے۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے۔ اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں رہے۔ اورینٹل کالج میں بطور عربی ریڈر مدت ملازمت ختم ہو گئی تو 1903ء میں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے اقبال گورنمنٹ کالج میں تقرر ہو گیا۔ بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے۔ وہاں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ یکم اکتوبر 1905ء کو یورپ جانے کے لیے تین سال کی رخصت لی اور 25 دسمبر 1905ء کو علامہ اقبال اعلی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ سر عبدالقادر بھی یہیں تھے۔ 4 نومبر 1907ء کو میونخ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے دی۔ 1908ء میں یہ مقالہ پہلی بار لندن سے شائع ہوا۔ انتساب آرنلڈ کے نام تھا۔ ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آئے۔ بیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کردی۔ کچھ مہینے بعد سارے امتحان مکمل ہو گئے۔ جولائی 1908ء کو نتیجہ نکلا۔ کامیاب قرار دیے گئے۔ اس کے بعد انگلستان میں مزید نہیں رُکے، وطن واپس آ گئے۔
ابتدا میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان ہوا تو علامہ اقبال نے عملی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے یکم فروری، 1912ء کو موچی دروازہ لاہور میں مسلمانوں کے احتجاجی جلسے میں شرکت کی۔ علامہ اقبال کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہو گیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔
اقبال کی تصانیف
کُلیّاتِ اِقبال، علم الاقتصاد – 1903ء، اسرار خودی – 1915ء، رموز بے خودی – 1917ء، پیام مشرق – 1923ء، زبور عجم – 1917ء، جاوید نامہ – 1932ء، مسافر – 1936ء، پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق – 1931ء، مہدف مقالہ: اردو شاعری، بانگ درا – 1924ء، بال جبریل – 1934ء، ضرب کلیم – 1936ء، ارمغان حجاز – 1938ء، فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء – 1908ء، اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو – 1930ء
اقبال کے نمایاں اور منفرد تصورات و نظریات میں خودی، عقل و عشق، مرد مومن، وطنیت و قومیت، اقبال کا تصور تعلیم، اقبال کا تصور عورت، اقبال اور مغربی تہذیب، اقبال کا تصور ابلیس اور اقبال اور عشق رسولؐ شامل ہیں۔
علامہ محمد اقبال 21 اپریل 1938ء بمطابق 20، صفر المصفر 1357ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے اور ان کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کا مزار لاہور میں شاہی مسجد کے ساتھ واقع ہے۔