سندھ ہائی کورٹ کا امتناع خارج کر کے سپریم کورٹ نے حکومت کو اجازت دے دی ہے کہ وہ شوگر ملز مالکان کے خلاف کاروائی کریں جبکہ یہ فیصلہ شوگر انکوائری کمیشن کی سفارشات پہ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد اور سندھ ہائکورٹ کو عدالت عظمی کی جانب سے تین ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ میرٹ کی بنیاد پر ان کیسز کا فیصلہ کریں۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ شوگر ملز کی ہائی کورٹ میں کئی درخواستیں زیر التوا ہیں تع پھر سپریم کورٹ کیسے فیصلہ کر سکتی ہے؟
مزید کہا کہ شوگر ملز چاہیں تو وہ پشاور اور بلوچستان ہائی کورٹ سے بھی رجوع کر سکتی ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دئیے کہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں ہو سکتا کہ عوامی مفادات کو نظر انداز کر دیا جائے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم سیاست میں مداخلت کیسے کر سکتے ہیں یا حکومت کو کسی کام کے کرنے سے بھی کیوں روکیں؟
اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا گیا کہ کیا بیس شوگر ملز آسمان سے اتری ہیں کہ جو ان جے خلاف کاروائی نہیں ہو سکتی، سندھ ہائیکورٹ کا حکم امتناع قانون کی نظر سے بھی غکط ہے۔ جبکہ شوگر ملز کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حکومتی میڈیا کی بیان بازی سے اسٹے خارج ہوا تو پھر یہ کیس متاثر ہو جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں منگل کو تین رکنی بنچ نے شوگر ملز کے معاملے میں درخواست کی سماعت کی جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت چاہتی ہے کہ چینی کے بعد پیٹرولیم بحران پر بھی کمیشن بنائے جبکہ سندھ ہائیکورٹ کا کاروائی سے روکنا غیر قانونی عمل ہے، وہ یہ چایتے ہیں کہ حکم امتناع والا مسئلہ پیٹرول کمیشن کے بعد ہی حل ہو۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ عوامی مفاد کا ہے لہذا ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس کا فیصلہ کر دے۔ سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کے حکم امتناع پر عملدرآمد پر عمل کو روکنے کا حکم دے دیا۔ عدالت عظمی کی جانب سے حکومت کو شوگر ملز کے خلاف کاروائی کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جبکہ حکومتی عہدیداران کو بھی بیان بازی سے روک دیا ہے۔