اپریل کے پہلے ہفتے میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کے سلسلے میں ایک بار پھر میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کی بجائے خاندانی تعلقات کی بنیاد پر ٹکٹوں کی تقسیم کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ نہیں کہ یہ کسی ایک صوبے کی بات ہے بلکہ سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا (کے پی) اور بلوچستان سب اس غیر جمہوری رویہ کے شکار نظر آتے ہیں۔
سندھ میں سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم پارٹی کے اندر ذاتی تعلقات کے اثر کو ظاہر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ، میاں رضا ربانی کو امیدواروں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ٹکٹ ایسے افراد کو جاری کیے گئے ہیں جن کے خاندانی تعلقات یا قریبی رشتے ہیں جیسے ندیم بھٹو اور قرۃ العین مری۔ اس رجحان کی عکاسی کرتے ہوئے، سیاسی تجزیہ کار شہاب استو
اس سے ایک افسوس ناک حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ پاکستانی سیاست میں اب تک میرٹ کی بجائے ذاتی تعلقات کی ترجیح دی جاتی ہے۔
شاید اسی لئےاوسٹو نے ریمارکس دیئے تھے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں زیادہ تر خاندانی اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ٹکٹیں تقسیم کرتی ہیں۔ انہوں نے اس طرح کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری اصولوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
پنجاب میں جہاں بااثر شخصیات اور پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) کے دیرینہ ساتھی ہیں انہیں پسند کیا جا رہا ہے جیسا کہ محسن نقوی اور احد چیمہ۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ انتخابی عمل نے پارٹی کارکنوں کو پارٹی رہنماؤں سے ذاتی روابط رکھنے والے افراد کے حق میں نظر انداز کر دیا ہے جس سے صرف خاندانی سیاست کو فروغ ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹکٹ چاہے وہ سینیٹ کے انتخابات کے ہوں یا دوسرے انتخابات کے، صرف بااثر افراد کو ہی جاری کیے جاتے ہیں۔
سینیٹ میں ٹکٹوں کی غیرمنصفانہ تقسیم موروثی سیاست کی عکاسی کرتی ہے۔
اسی طرح پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے فیصل جاوید اور اعظم خان سواتی بھی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تنقید کے باوجود بار بار سینیٹ کے ٹکٹ حاصل کیے ہیں۔
اس حوالے سے جماعت اسلامی (جے آئی) سے وابستہ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے اصل میں صوبائی نمائندگی اور قانون سازی کی نگرانی کے پلیٹ فارم کے طور پر سینیٹ کی اہمیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔