سپریم کورٹ آف پاکستان نے حالیہ مبارک ثانی کیس میں متنازعہ پیراز کو فیصلے سے خارج کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ معاملہ مبینہ طور پر قادیانی جماعت سے متعلق تھا اور اس پر مختلف طبقات بالخصوص تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت نے حکومت کی درخواست پر یہ فیصلہ کیا جس میں عدالت نے کہا کہ جو پیراز خارج کیے گئے ہیں، وہ کسی بھی قانونی نظیر کے طور پر استعمال نہیں ہوں گے۔
اس فیصلے میں سب سے زیادہ توجہ پیراگراف 7 اور 42 پر تھی، جو 6 فروری کے فیصلے اور 24 جولائی کے نظر ثانی شدہ فیصلے میں شامل تھے۔ ان پیراز میں قادیانی جماعت کو تبلیغ کے حقوق کے حوالے سے کچھ باتیں شامل تھیں، جنہیں اسلامی تنظیمات اور قانونی ماہرین نے متنازعہ قرار دیا۔
عدالت نے ان پیراز کو فیصلے سے نکالنے کا حکم دیا اور کہا کہ آئندہ سے یہ پیراز عدالتی نظیر کے طور پر استعمال نہیں کیے جا سکتے۔
معروف اسلامی سکالر مفتی منیب الرحمن نے بھی ان پیراز کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ یہ پیراز اسلامی تعلیمات اور پاکستانی آئین کے مطابق نہیں ہیں۔
مفتی منیب الرحمن نے پیراگراف 42 کے حوالے سے خاص طور پر اعتراض کیا کہ اس میں لفظ "تبلیغ” کا استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ قادیانی جماعت کو اپنے عقائد کی تبلیغ کی اجازت ہے جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
اس فیصلے کے بعد عدالت نے حکم دیا کہ متعلقہ ٹرائل کورٹ اب اس فیصلے کے نکات سے متاثر ہوئے بغیر اپنی کارروائی جاری رکھے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 کے تحت دیے گئے قانونی فریم ورک میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے اور فیصلے میں قانون کے کسی بھی پہلو کے خلاف کوئی بات شامل نہیں کی گئی ہے۔
اس فیصلے پر مختلف اسلامی تنظیمات کی جانب سے ملا جلا ردعمل آیا ہے، کچھ نے اسے عدالت کی جانب سے انصاف کی فراہمی کے عمل کا حصہ قرار دیا جبکہ کچھ نے اسے اسلامی قوانین کے تحفظ کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان اور جنیعت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر تنظیمات نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
اس کیس کے فیصلے کو قانونی ماہرین اور عوامی حلقوں میں بڑی دلچسپی کے ساتھ دیکھا گیا ہے اور اسے پاکستان میں عدالتی فیصلوں کی شفافیت اور انصاف کی فراہمی کے عمل کا ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔