سپریم کورٹ نے جمعرات کو وزیر اعظم عمران خان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز ایاز صادق کی سات سال پرانی درخواست کی سماعت کی جس میں 2013 کے عام انتخابات میں لاہور کے حلقہ این اے 122 سے ان کی انتخابی کامیابی کو کالعدم قرار دینے والے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
ایاذ صادق نے 2013 کے عام انتخابات میں این اے 122 سے عمران خان کو شکست دی تھی جس کے بعد پی ٹی آئی سربراہ نے نتائج کو چیلنج کیا تھا۔
پنجاب الیکشن کمیشن کے ٹربیونل نے 15 اگست 2015 کو حلقہ این اے 122 میں 2013 کے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ پولنگ کا حکم دیا تھا۔ تاہم، دو ماہ بعد اس نشست پر دوبارہ انتخابات میں، ایاذ صادق نے دوبارہ کامیابی حاصل کی اور اس بار پی ٹی آئی کے علیم خان کو شکست دی۔
آج سماعت کے موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے نوٹ کیا کہ یہ کیس 2013 کے انتخابات سے متعلق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان انتخابات کی مدت ختم ہو چکی ہے۔
اس پر ایاذ صادق کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل پر بلاجواز جرمانہ عائد کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں | میں پہلی دفعہ عورت مارچ میں گئی اور جانئے میں نے کیا دیکھا
مسلم لیگ (ن) کے رہنما، جو عدالت میں بھی موجود تھے، نے کہا کہ ان سے نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ریکارڈ اور کیس سے متعلق دیگر دستاویزات کے معائنے میں ہونے والے اخراجات کی ادائیگی کے لیے کہا گیا ہے۔
ایاذ صادق نے مزید کہا کہ ان پر اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن میں دھاندلی کا غلط الزام لگایا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان، نادرا اور وزیراعظم کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے۔
این اے 122 ان چار متنازعہ حلقوں میں شامل تھا جس کی ری پولنگ کا مطالبہ موجودہ وزیر اعظم نے کیا تھا۔ دیگر تین حلقے این اے 110 (سیالکوٹ)، این اے 125 (لاہور) اور این اے 154 (لودھراں) تھے۔
عام انتخابات میں ناکامی پر پارٹی نے 2014 میں اسلام آباد میں ایک ماہ طویل حکومت مخالف احتجاج کیا تھا۔
ایاذ صادق نے ستمبر 2015 میں ٹریبونل کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف ایاذ صادق کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست تب سے زیر التوا ہے۔