حالیہ دنوں میں سوڈان کی فضائیہ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل الطاہر محمد العواد الامین اور سوڈان کے دیگر اعلیٰ عسکری حکام کا پاکستان کا دورہ خاص توجہ کا حامل رہا۔ اس دورے کے دوران سودانی فوجی ادارے نے پاکستان کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کی مالیت 1.5 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس معاہدے کے تحت سوڈان کو تربیتی اور حملے کے طیارے، مختلف اقسام کے ہزاروں جدید ڈرونز، لڑاکا طیاروں کے انجن، 150 ASV محافظ بکتر بند گاڑیاں اور جدید فضائی دفاعی نظام فراہم کیے جائیں گے۔
یہ معاہدہ کئی وجوہات کی بنا پر توجہ کا مرکز ہے۔ ایک طرف سوڈان میں جاری داخلی تنازع اور انسانی بحران کی روشنی میں یہ رقم انسانی ضروریات پر خرچ کی جا سکتی تھی جیسے خوراک، صحت اور پناہ گاہیں تاکہ عام شہریوں کی زندگیوں میں بہتری لائی جا سکے۔ لاکھوں لوگ خوراک کی کمی، پناہ کی غیر یقینی صورتحال اور طبی سہولیات کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں اور ایسے میں یہ سرمایہ کاری دفاعی ہتھیاروں میں ہو رہی ہے جو مستقبل میں فوجی کشیدگی بڑھا سکتے ہیں۔
دوسری طرف معاہدے کی نوعیت اور حجم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سودانی فوج اپنے مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی بجائے فوجی حل پر زیادہ اعتماد کر رہی ہے۔ UAVs اور دیگر ہتھیار اگرچہ فوجی استعمال کے لیے تیار کیے گئے ہیں لیکن ان کے اثرات براہِ راست شہری زندگیوں اور انسانی حقوق پر پڑ سکتے ہیں۔ عالمی برادری اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ اس قسم کے ہتھیار امن کے بجائے کشیدگی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
Sudan’s SAF junta controlled Military Industry Corporation has signed a defense contract with Pakistan valued at over $1.5 billion, according to Pakistani media, following a high-level SAF delegation’s visit to Islamabad.https://t.co/0Z7ZbENrwM
— The Sudan Times (@thesudantimes) August 16, 2025
تجزیہ کاروں کے مطابق معاہدے کی مالیت اور اس کی نوعیت کے پیش نظر ممکنہ طور پر کوئی تیسری پارٹی مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔ اس میں پاکستان–ترکی دفاعی تعلقات بھی ایک اہم پس منظر ہیں کیونکہ ترکی کی معروف حمایت سودانی فوج کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس تناظر میں یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان کے دفاعی تعلقات کو مضبوط کرتا ہے بلکہ ایک عالمی سطح پر جغرافیائی اور سیاسی اثرات بھی پیدا کر سکتا ہے۔
انسانی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 1.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اگر انسانی فلاح، صحت، تعلیم اور بنیادی سہولیات کے لیے استعمال کی جاتی تو لاکھوں شہریوں کی زندگیوں میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی تھی۔ تاہم یہ سرمایہ کاری دفاعی اور فوجی استعداد بڑھانے پر مرکوز ہے جس کے اثرات انسانی صورتحال پر براہِ راست پڑ سکتے ہیں۔ یہ امر خاص طور پر اس وقت تشویشناک ہے جب سودان میں لاکھوں لوگ بے گھری، بھوک اور صحت کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
علاقائی سطح پر بھی اس معاہدے کے اثرات قابل غور ہیں۔ مشرقی افریقہ اور بحیرہ احمر کے خطے میں اسلحے کی دوڑ بڑھ سکتی ہے اور پڑوسی ممالک جیسے ایتھوپیا، چاڈ، جنوبی سودان اور مصر میں عدم استحکام کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کے دفاعی معاہدے علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور انسانی المیے میں اضافے کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ معاہدہ ایک نازک مقام پر ہے۔ ایک طرف دفاعی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور فوجی صنعت میں شراکت داری بڑھتی ہے لیکن دوسری طرف، انسانی حقوق کے تحفظ اور بین الاقوامی ساکھ کے حوالے سے سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ اس معاہدے کے تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ دفاعی تعلقات کو انسانی فلاح اور امن کی کوششوں کے ساتھ توازن میں رکھنا چاہیے۔
نتیجتاً یہ معاہدہ سودان–پاکستان تعلقات کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ کئی سوالات بھی پیدا کرتا ہے: کیا انسانی ضروریات اور امن کی ترجیح دی جائے گی؟ یا دفاعی استعداد اور فوجی حل پر زیادہ زور دیا جائے گا؟ دنیا اور خطے کے لیے یہ ایک ایسا لمحہ ہے جہاں فیصلے صرف فوجی یا اقتصادی نہیں بلکہ انسانی اثرات کے حامل بھی ہیں۔یہ بھی پڑھیں : متحدہ عرب امارات کی ثالثی سے روس-یوکرین قیدیوں کا تبادلہ کامیاب