سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعرات کو کہا کہ سونا خریدنا کوئی انویسٹمنٹ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کا کیس بظاہر مضبوط ہے کیونکہ ان کے قانون ساز بننے کے بعد ان کے اثاثوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان (سی جے پی) جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب کی جانب سے غیر قانونی اثاثے بنانے کے ریفرنس میں آغا سراج درانی کی درخواست ضمانت کی سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں | وزیرستان: دو سیکورٹی آپریشنز میں آٹھ دہشتگرد ہلاک
سماعت کے دوران جسٹس بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آغا سراج درانی کے خلاف پہلی نظر میں اینٹی گرافٹ باڈی کا کیس مضبوط ہے کیونکہ قانون ساز بننے کے بعد ان کے اثاثوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
اپنے گھر کو جیل قرار دینے کا مطلب ہے کہ درانی بہت بااثر شخص ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک کا نظام بااثر لوگوں کو مکمل سہولیات دیتا ہے۔ عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو ہدایت کی کہ وہ اس تجویز پر اپنا نقطہ نظر پیش کرے کہ ملزم کو گرفتار کرنے کے بجائے اس کی نقل و حرکت کو محدود کیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘درانی اپنے گھر پر ہیں چاہے ان کی ضمانت نہ ہو’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان کو جیل بھیجنے سے نیب کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے مشورہ دیا کہ نیب ٹرائل کے اختتام تک درانی کے اثاثے منجمد کر سکتا ہے یا ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال سکتا ہے۔
آغا سراج درانی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کا تعلق امیر خاندان سے ہے اور اثاثے بنانا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وکیل نے موقف اختیار کیا کہ نیب نے ان کے موکل کی آمدن کا تعین 2007 سے کیا تھا تاہم ان کے موکل کے پاس پہلے بھی اثاثے اور ذرائع آمدن تھے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل نے 2007 سے ٹیکس گوشوارے جمع کرانا شروع کیے ہیں اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے سے پہلے ان کی آمدنی صفر تھی۔
آغا سراج درانی اور ان کا خاندان 1985 سے 900 ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں۔
بنچ کی رکن جسٹس عائشہ اے ملک نے وکیل سے استفسار کیا کہ ملزم نے 1985 سے 2008 تک کتنی رقم کمائی؟ جج نے مزید کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ وہ 2008 تک کماتا رہا اور پھر تیزی سے خرچ کرنے لگا۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے کہ اگر درانی پیسے بچا رہے تھے تو معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے کتنی بچت کی اور کتنا خرچ کیا۔ وکیل نے جواب دیا کہ درانی نے 1998 میں چار کنال کے دو گھر بیچے جس پر جسٹس عائشہ نے ریمارکس دیئے کہ بیچے گئے گھروں کی قیمت بھی معلوم نہیں۔