حالیہ دنوں میں روس اور یوکرین کے درمیان 115 قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری ہے اور عالمی برادری تناؤ کو کم کرنے کے لیے مختلف سفارتی کوششیں کر رہی ہے۔
یہ تبادلہ متحدہ عرب امارات کی ثالثی میں طے پایا ہے، جو کہ اس پورے عمل میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اماراتی اہلکار کے مطابق، یہ اقدام انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے ضروری تھا اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
یہ تبادلہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ مہینوں میں ہونے والا پہلا تبادلہ ہے۔ اس سے پہلے، فروری 2022 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے، متحدہ عرب امارات نے روس اور یوکرین کے درمیان چھ قیدیوں کے تبادلے کرائے ہیں جبکہ کل 1,788 قیدی رہا کیے جا چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: متحدہ عرب امارات کی اقتصادی تنوع: تیز رفتار ترقی کی جانب سفر
متحدہ عرب امارات نے اس ثالثی کے ذریعے اپنے آپ کو بین الاقوامی سطح پر ایک مؤثر ثالث کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات مختلف بین الاقوامی فریقوں کے ساتھ بات چیت کی صلاحیت رکھتا ہے جو اسے عالمی سطح پر تعاون اور سلامتی کے فروغ میں مدد دیتی ہے۔
اس تبادلے کے بعد، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت اور آئندہ کے سفارتی اقدامات کے حوالے سے کیا تبدیلیاں آئیں گی، یہ دیکھنا باقی ہے۔ تاہم، یہ واضح ہے کہ اس اقدام سے جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
یہ تبادلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی ثالثی کسی بھی تنازع میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، خاص طور پر جب براہ راست مذاکرات ناکام ہو جائیں۔ یہ صورتحال روس اور یوکرین کے تنازعے میں ایک نئی جہت کی طرف اشارہ کرتی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹے ممالک بھی بڑی طاقتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔