آرمی ایکٹ میں خاص تبدیلی زیر غور نہیں
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں کوئی خاص تبدیلی کرنے پر غور نہیں کر رہی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک مقامی روزنامے کی رپورٹ کے بعد بتایا کہ قانون میں معمولی تبدیلیاں کی جائیں گی۔ پاکستان آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بارے میں میڈیا کی تشہیر غیر ضروری ہے۔
شقوں پر نظر ثانی کا مطالبہ
حکومت مذکورہ ایکٹ میں کسی بڑی تبدیلی پر غور نہیں کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے سی پی 39/2019 میں اپنے فیصلے میں آرمی ایکٹ کی متعلقہ شقوں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا تھا جس کی مناسب وقت پر تعمیل کی جائے گی۔
اس سے پہلے بعض اخباروں نے شائع کیا تھا کہ "ایسا لگتا ہے” کہ حکومت آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ تقرری کرنے والی اتھارٹی یعنی وزیر اعظم کو بااختیار بنایا جا سکے، تاکہ کسی بھی امیدوار کو ایک سادہ نوٹیفکیشن کے ذریعے برقرار رکھا جا سکے، بجائے اس کے کہ ایک پیچیدہ، آئینی عمل سے گزرنا پڑے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کچھ تبدیلیوں کے بعد گزشتہ ماہ وزارت دفاع کی منظوری کے بعد رپورٹ کو کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کیسز کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ بعد ازاں یہ قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں | آرمی چیف کی تقرری کو متنازعہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، چوہدری شجاعت
یہ بھی پڑھیں | شہباز شریف کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا
یہ اطلاعات اس وقت سامنے آئیں جب فوج کمان کی تبدیلی کو دیکھنے کے لیے تیار ہے اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے ماہ ریٹائر ہونے والے ہیں۔ آرمی چیف آج کل الوداعی دوروں میں مصروف ہیں۔
آرمی چیف کون ہو گا؟
حکمران اتحاد میں سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر مسلم لیگ (ن) نے فیصلہ کیا ہے کہ وزیر اعظم کو بھیجی جانے والی فہرست میں جس سینئر ترین فوجی اہلکار کا نام سرفہرست ہو گا، اسے آرمی چیف عہدے کے لیے مقرر کیا جائے گا۔