حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا شمار سندھ کے عظیم صوفی شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی زندگی اور خدمات کا احاطہ کرنا آسان نہیں، لیکن ان کی زندگی کے چند اہم پہلوؤں کو زیر بحث لاتے ہیں۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ابتدائی زندگی اور تعلیم
شاہ عبداللطیف بھٹائی 1689ء میں سندھ کے ایک معزز اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم اکبر نور محمد بھٹی کے مدرسے سے ہوئی جہاں قرآن اور حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی تعلیم کا مزید سلسلہ جاری رہا یا نہیں، اس پر مختلف آراء ہیں، لیکن ان کی شاعری "رسالو” سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن، حدیث، سندھی، فارسی، اور دیگر زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کا صوفیانہ سفر اور شاعری
شاہ عبداللطیف نے نوجوانی میں ہی صوفیانہ راستہ اختیار کیا اور مختلف علاقوں کا سفر کیا۔ یہ سفر ان کے روحانی تجربات میں اضافے کا باعث بنے اور ان کی شاعری میں گہرائی پیدا کی۔ انہوں نے "واحدت الوجود” کے فلسفے کو اپنے منفرد انداز میں پیش کیا، جس سے سندھ کے معاشرے میں ایک نئی روحانی تحریک پیدا ہوئی۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے آخری ایام اور وصال
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی زندگی کے آخری سال بھٹ شاہ کے مقام پر گزارے جہاں انہوں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد مستقل سکونت اختیار کی۔ ان کے آخری دنوں میں انہوں نے مکمل طور پر عبادت اور ذکر اذکار میں مشغول رہنے کا فیصلہ کیا اور 1752ء میں ان کا وصال ہوا۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی میراث
شاہ عبداللطیف کی شاعری، جو "شاہ جو رسالو” کے نام سے مشہور ہے، آج بھی سندھ اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں سچائی، محبت، اور روحانیت کے پیغام کو منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی تعلیمات اور شاعری نے سندھ کی ثقافت اور صوفیانہ روایات پر گہرا اثر چھوڑا ہے اور آج بھی ان کا مزار بھٹ شاہ میں لوگوں کے لیے ایک اہم روحانی مرکز ہے۔