اپریل 20 2020: (جنرل رپورٹر) بلوچستان سے کراچی ایمبولینس اور مریض کی مدد سے گٹکے کی سپلائی کا دھندا بےنقاب ہو گیا
کراچی کی پولیس نے پچھلے چوبیس گھنٹوں میں دو "ایمبولینسز” پکڑی ہیں جن کو گٹکے کی سپلائی کے لئے استعمال کیا جاتا رہا تھا
تفصیلات کے مطابق ملزمان نے اس مکروہ دھندے کو چھپانے کے لئے ایک ایمبولینس تیار کی جس میں جعلی مریض اور لواحقین بھی بٹھائے نیز اس ایمبولینس میں موجود اسٹریچر کے نیچے گٹکا چھپایا- ملزمان بلوچستاب سے کراچی داخل ہو کر کئی جگہ اس کی سپلائی بھی کر چکے تھے
پولیس زرائع کے مطابق لیاری کے نیپئیر تھانے کی حدود میں کشتء چوک پر کسی کی خفیہ اطلاع کی بناء پر پولیس نے اس نام نہاد ایمبولینس کو روکا اور تلاشی لی- عموما ایمبولینس کو ایک دو منٹ کی ابتدائی چیکنگ کے بعد جانے دیاجاتا ہے- مگر مریض اور دیگر شامل ملزمان کی اوورایکٹنگ سے پولیس کو شک ہوا ایمبولینس والی گاڑی کی مکمل تلاشی لی- تلاشی کے دوران ایمبولینس کی سیٹوں اور اسٹریچر کے نیچے سے بھاری تعداد میں گٹکا برآمد ہوا- جس میں دو سو بڑے بڑے جے ایم پیکٹ اور گٹکے کی بھی بیس ہزار پڑیاں تھیں
پولیس زرائع کا کہنا تھا کہ ان ملزمان کو تھانے پہنچا دیا گیا ہے- ملزمان سے تقریبا ہونے چار لاکھ کی رقم بھی موصول ہوئی جو وہ مختلف مقامات پر اپنی پراڈکٹ بیچ کر آئے تھے- ملزمان کا کہنا تھا کہ وہ یہ گٹکا بلوچستان ایمبولینس سے لوڈ کر کے کراچی کے مختلف مقامات پر بیچتے رہے اور ان کا آخری سٹاپ سہراب گوٹھ تھا
ملزمان نے بعد از گرفتاری یہ انکشاف بھی کیا کہ برآمد شدہ مال.اور ایمبولینس دونوں دراصل امین افغانی پٹھان کی ملکیت ہیں اور یہ تینوں ملزمان اس کے پاس دہاڑی پر کام کرتے ہیں
پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر کے شہر کے داخلی راستوں کی چیک پوسٹس پر سخت چیکنگ کا آغاز کر دیا ہے- بالخصوص بلوچستان سے آنے والی ہر ایمبولینس کی مکمل چھان بین کر کے آگے بھیجا جاتا ہے
یاد رہے کہ حکومت اور عدلیہ کی جانب سے گٹکا اور اس جیسی مصنوعات کو منشیات قرار دے کر ان پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے عوام الناس تک یہ منشیات پہنچانے کے لئے غیرقانونی طریقوں کا استعمال کیا جاتا ہے