پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حالیہ مظاہروں اور سیاسی بحران کے بعد حکومت سے مذاکرات کے لیے آمادگی کا عندیہ دیا ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما بیرسٹر گوہر نے احتجاج کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر ردعمل دیا، جو مختلف حوالوں سے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا۔
حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں مظاہروں کے لیے متبادل مقامات کی تجویز دی گئی،ل جن میں پشاور موڑ اور دیگر علاقوں کا ذکر شامل تھا۔ حکومتی نمائندوں کے مطابق احتجاج کو محدود اور منظم رکھنے کی شرط رکھی گئی تھی۔ تاہم، بیرسٹر گوہر نے سرکاری مذاکرات کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ کوئی باضابطہ بات چیت نہیں ہو رہی ہے۔
عمران خان کا مؤقف
پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے جیل میں رہتے ہوئے پارٹی رہنماؤں کو “بااثر حلقوں” سے بات چیت کی اجازت دی ہے۔ تاہم، یہ بات چیت صرف پارٹی کے مطالبات پر ہونے کی شرط پر ہے، جن میں جیل میں قید کارکنوں کی رہائی اور سیاسی حقوق کی بحالی شامل ہے۔
حکومتی اقدامات
احتجاج کے پیش نظر حکومت نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان سڑکوں کو بند کرنے سمیت دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ حکومتی عہدیداروں کے مطابق، بین الاقوامی وفود کی آمد کے باعث شہر میں کسی بھی سیاسی مظاہرے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
سیاسی صورتحال ایک بار پھر مذاکرات اور تنازعات کے درمیان معلق ہے۔ اگرچہ بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کے امکان کو مسترد نہیں کیا لیکن ان کی مشروطیت واضح کرتی ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان اعتماد سازی کا فقدان موجود ہے۔