بیروت دھماکوں سے جہاں دوسو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، 6 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے وہیں افسوسناک بات یہ ہے کہ تقریبا 3 لاکھ افراد بےگھر ہو چکے ہیں۔ بیروت دھماکوں کے بعد وہاں کے لوگوں کی جانب سے حکومت کے خلاف پرتشدد مظاہرے شروع ہوئے جس کے بعد لبنان کے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ سمیت استعفی دے دیا ہے۔
زرائع کے مطابق لبنانی وزیر اعظم کی جانب سے اپنا استعفی لبنانی صدر مائیکل عون کو پیش کیا جائے گا۔
لبنانی وزیر اعظم حسن دیاب کی جانب سے لبنان کے قومی ٹی وی پر آ کر اپنے اور کابینہ کے استعفی کا اعلان کیا گیا۔
بیروت دھماکوں کے بعد لبنانی عوام کی جانب سے حکومت کو ذمہ دار ٹھرایا گیا تھا جس کے بعد سے پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری تھا جبکہ اس سلسلے میں پولیس سے بھی مظاہرین کی کئی جھرپیں ہوئیں۔
عوام سے خطاب کے دوران حسن دیاب نےاقرار کیا کہ 7 سالوں سے بندرگاہ میں دھماکہ خیز مواد کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندرگاہ حکام نے کرپشن کی ہے اور یہ دھماکے اسی کرپشن کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے نظام کی حقیقی تبدیلی کے مطالبہ میں عوام کے ساتھ یوں۔ ذمہ داروں کو منتقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔
وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کے استعفی سے پہلے لبنان کابینہ اجلاس میں وزیر ماحولیات، وزیر اطلاعات ، وزیر انصاف اور وزیر مالیات سمیت 9 ارکان اسمبلی نے استعفی دیا تھا جبکہ مستعفی ہونے والے ارکان نے دیگر ارکان پر بھی زور دیا تھا کہ وہ استعفی دیں جس کے بعد وزیر اعظم لبنان نے کابینہ سمیت استعفی دیا اور حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
بیروت میں بندرگاہ کے مقام پر دھماکے سے بڑے پیمانے ہر تباہی ہوئی ہے جس سے عمارتیں، رہائش گاہیں اور گاڑیاں تباہی کی نذر ہو گئیں۔
برطانوی یونیورسٹی شیفیلیڈ کے ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری دھماکہ تھا جبکہ انہوں نے اسے دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے شہر ہیروشیما میں گرائے گئے جوہری بم کی شدت کا دسواں حصہ قرار دے دیا۔