بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK) میں ایک مرتبہ پھر متنازع انتخابات کا آغاز کیا ہے جو پہلے مرحلے میں فوج کی بھاری نفری کی نگرانی میں ہو رہے ہیں۔
ان انتخابات کو کشمیری عوام نے مسترد کرتے ہوئے انہیں "فریب” اور "جعلی جمہوریت” قرار دیا ہے۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں یہ نام نہاد انتخابات دراصل وہاں کی اصل صورتحال کو چھپانے اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش سمجھی جا رہی ہے۔
کشمیر میں انتخابات کے حوالے سے خدشات اس وقت شدت اختیار کر گئے جب 2019 میں بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی۔
اس کے بعد سے کشمیری عوام کو ان انتخابات میں دلچسپی نہیں ہے اور زیادہ تر لوگوں نے اس عمل کا بائیکاٹ کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارتی حکومت نے انتخابی حلقہ بندیوں میں تبدیلی اور دیگر اصلاحات کے ذریعے مسلم اکثریتی علاقوں میں نمائندگی کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اپنے حق میں نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
بھارتی سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری، پولیس اور نیم فوجی دستے انتخابات کے دوران نگرانی کر رہے ہیں جس سے خطے میں خوف و ہراس کی فضا مزید گہری ہو گئی ہے۔ مقامی اور عالمی ماہرین ان انتخابات کو کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف ایک "فوجی مشق” قرار دے رہے ہیں۔
کشمیر کے عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اپنے حق خودارادیت کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بھارت کا یہ عمل خطے پر اپنے تسلط کو جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے۔